کروئیشیا نے سربیا سے گذرنے والے اپنے اٹھ میں سے سات سرحدی علاقوں کو بند کردیا ہے۔ اس وقت ہزاروں تارکینِ وطن جرمنی اور یورپی یونین میں داخلے کے لیے متبادل راستے کی تلاش میں ہیں۔
حکام کا کہنا ہے کہ ان کے پاس اس کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں تھا کیونکہ اورہنگری کی جانب سے سرحد بند کیے جانے کے بعد گذشتہ دو دنوں کے دوران کم ازکم 11 ہزار تارکینِ وطن کروئیشیا میں داخل ہو چکے ہیں۔ خیال رہے کہ اس سے قبل کروئیشیا کے وزیراعظم زوران میلانوچ کا کہنا ہے کہ ان کا ملک مغربی یورپ جانے کی خواہاں تارکینِ وطن کو نہیں روک سکتا۔ اپنے بیان میں کروئیشیا کے وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ان کے پاس محدود جگہ ہے تاہم وہ کوشش کریں گے کہ جتنا ممکن ہو سکے تارکینے وطن کو رجسٹرڈ کیا جائے۔ دوسری جانب خبر رساں ادارے روئٹرز نے ایک سرکاری اہلکار کے حوالے سے بتایا ہے کہ جمعرات کو سلووینیا کی پولیس نے کروئیشیا کی سرحد کے قریب دبوا کے مقام پر تارکینِ وطن کی ٹرین کو روکا جس میں 100 کے قریب افراد موجود تھے۔ بتایا گیا ہے کہ ان تاکرینِ وطن کو دوبارہ کروئیشیا بھجوایا جائے گا۔ ادھر کئی گھنٹوں کے انتظار کے بعد جب لوگوں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوا تو سرحد پر دو جگہ ہنگامہ آرائی بھی ہوئی۔ جس کے نتیجے میں ہزاروں پناہ گزین پولیس کی صفوں کو توڑ کو سربیا میں داخل ہونے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ یہ تارکینِ وطن جرمنی جانا چاہتے ہیں تاہم کروئیشیا کے حکام کا کہنا ہے کہ انھیں پناہ کی درخواست دینی ہوگی ورنہ انھیں غیر قانونی تارک وطن تصور کیا جائے گا۔ کروئیشیا کے دارالحکومت زگریب میں موجود بی بی سی کے نامہ نگار گوئے ڈیلونی کا کہنا ہے کہ سرحدی راستوں کی بندش کی وجہ سے یونان سے شمالی یورپ تک مرکزی زمینی راستہ بند ہوگیا ہے۔ ادھر پناہ گزینوں کے بحران سے نمٹنے کے لیے یوریی یونین کے رہنماؤں کا ہنگامی اجلاس اگلے ہفتے ہو رہا ہے۔ کروئیشیا کے سرحدی علاقے ٹیورنک میں موجود بی بی سی کے نمائندہ فرگل کین نے بتایا ہے کہ جمعرات کو کروئیشین پولیس کوشش کر رہی تھی کہ وہ کئی ہزار پناہ گزینوں کو اپنی سرحد کے اندر داخل نہ ہونے دے لیکن لوگوں نے پولیس کو پیچھے دھکیلنا شروع کر دیا۔ بتایا گیا ہے کہ اس وقت تارکین وطن کی ایک بڑی تعداد کروئیشیا سے آگے جانے کے لیے سربیا کے گاوں سِد کی سرحد پر موجود ہیں۔کروئیشیا نے سربیا سے متصل سرحدی راستے بند کر دیے
وقتِ اشاعت : September 18 – 2015