ڈیرہ بگٹی سونا اگلنے والی سرزمین ہے گزشتہ کئی دہائیوں سے ملک بھر میں گیس اسی خطے سے جارہی ہے جس سے ملک کی صنعت کا پہیہ اور چھوٹے بڑے دیہات تک کے گھروں کے چولہے جل رہے ہیں جبکہ یہی گیس بلوچستان کے اسی علاقے میں دستیاب نہیں جہاں سے یہ نکلتی ہے۔ لوگ لکڑی سے اپنے گھر کا چولہا جلاتے ہیں کتنی حیرانگی کی بات ہے کہ اسی گیس فیلڈ سے اربوں روپے وفاقی حکومت کماتی ہے اور کمپنیاں کام کررہی ہیں ،بڑے پیمانے پر منافع لے رہی ہیں مگر افسوس کہ اس بدقسمت علاقے کی تقدیر نہیں بدلی۔ ڈیرہ بگٹی کے علاقے پیرکوہ میں ہیضے کی وباء پھوٹ پڑی ہے جس سے قیمتی جانیں ضایع ہوگئی ہیں۔
المیہ ہے کہ اس علاقے کو صاف پانی تک میسر نہیں دیگر سہولیات اپنی جگہ ،جو وعدے اور دعوے بلوچستان کے ساتھ کئے جاتے ہیں ان کی تمام تر قلعی پیرکوہ میں حالیہ اموات اور ہیضے کی وباء اور اقدامات سے کھل جاتی ہے کہ بلوچستان کے اندر حکمرانوں کی دلچسپی کس میں ہے۔آج تک بلوچستان کی محرومیوں کا ازالہ کرنے کی بات کی جارہی ہے مگر ایک وعدہ بھی وفا نہیں ہوا ہے، بڑے بڑے میگامنصوبے بلوچستان میں چل رہے ہیں مگر اس خطے کے غریب باسی علاج سے لیکر تعلیم کے حصول تک کے لیے دیگر صوبوں کا رخ کرتے ہیں، اپنے ہی گھر کے اندر رہتے ہوئے ان تمام تر سہولیات سے محروم افراد کیا کرسکتے ہیں۔
یقینا نقل مکانی پر ہی مجبور ہونگے۔ بلوچستان کے مسائل کو ہر وقت نظرانداز کیا گیا ،مین اسٹریم میڈیا سے لیکر حکمرانوں تک کی دلچسپی بلوچستان میں خاص نہیں رہی ہے اپنے مفادات اور ترجیحات ہی کے تحت بلوچستان کو اہمیت دیتے ہیں وگرنہ ان کی نظر میں بلوچستان اور ان کے باسیوں کی زندگی کوئی معنی نہیں رکھتی۔ ملک کے دیگر حصوں میں جب پیرکوہ جیسی صورتحال پیدا ہوتی تو تمام بڑی سیاسی جماعتیں اس پر ہر گھنٹے کے بعد پریس کانفرنس کرتے دکھائی دیتیں اور حکومت کو ہدف تنقید کا نشانہ بناتیں ۔جس طرح تھر میں قحط پڑا تو میڈیاکامرکز اور سیاستدانوں کی توجہ اسی پر مرکوز رہی ،اس لیے نہیں کہ انہیں تھر کی عوام سے بڑی لگاؤ اور درد کا رشتہ ہے کیونکہ سندھ ہے۔
اور پیپلزپارٹی کی حکومت ہے اس لیے خاص ایجنڈے کے تحت مخصوص میڈیا اور سیاستدان اس مسئلے کو اٹھاتے رہے ہیں یہ ایک ایسا رویہ ہے جس نے بلوچستان کی عوام کو حکمرانوں سے بدظن کردیا ہے، کاش یہی پیرکوہ سندھ یا حکومت کے کسی خاص حلقے میں ہوتا تو بھرپور سیاست ہوتی اور چند میڈیا ہائوسز اس پر خوب تماشا کرتیں کہ کس طرح کا انسانی بحران پیداہوگیا ہے، بے حسی کا عالم ہے کوئی سننے والا نہیں ہے عوام بے یارومددگار پڑے ہوئے ہیں حکمران شاہی محل اور ائیرکنڈیشن رومز میں بیٹھ کرمسائل حل کرنے کی یقین دہانی کرارہے ہیں۔
انہیں کوئی درد نہیں کہ یہاں انسان بستے ہیں جو اشرف المخلوقات ہے ان کے ووٹرز ہیں ان کو منتخب کیا ہے مگر انہیں پوچھا تک نہیں جاتا ۔سب سے اہم بات ہے کہ دنیا کے کسی بھی کونے میں انسانی بحران جنم لیتا ہے تو انسانی ہمدردی کی بنیاد پر اس مسئلے کو اٹھایا جاتا ہے جنگی حالات ہو ں یا پھر قدرتی آفات اسے نظرانداز بالکل نہیں کیاجاسکتا ۔بلوچستان کے عوام کا یہی شکوہ رہا ہے کہ ان کے مسائل ترجیحات پر کبھی نہیں رہے اور نہ ہی ان سے کسی کوکوئی غرض ہے، اگر بلوچستان میں دلچسپی ہے تو صرف وسائل اور منافع سے ہے، خدارا اس روش کو ختم کیاجائے انہی رویوں کی وجہ سے آج بلوچستان کی عوام ناراض ہے پھر بھی پوچھا جاتا ہے کہ ناراضگی کے اسباب کیا ہیں جو واضح طور پر دکھائی دے رہے ہیں،نظریںچرانے کی بجائے حقیقت کا سامنا کریں بلوچستان کے درد کو اپنا سمجھیں محض بلوچستان کو منافع بخش خطے کی نظر سے نہ دیکھیں انسانی بنیادوں پر بھی توجہ دیں۔