|

وقتِ اشاعت :   October 6 – 2015

کوئٹہ : وزیر اعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے سنڈیمن صوبائی ہسپتال میں ڈاکٹروں کی غیر حاضری کا سختی سے نوٹس لیتے ہوئے سیکریٹری صحت کو ہدایت کی ہے کہ غیر حاضر ڈاکٹروں کے خلاف قواعد و ضوابط کے مطابق کاروائی کرتے ہوئے انہیں فوری طور پر معطل کیا جائے، وزیر اعلیٰ نے امراض قلب کے آئی سی یو اور سی سی یو میں وینٹی لیٹر مشینوں کی عدم دستیابی کا بھی نوٹس لیتے ہوئے ہدایت کی ہے کہ ان شعبوں میں فوری طور پر وینٹی لیٹر مشینیں نصب کی جائیں۔وہ پیر کے روز سنڈیمن صوبائی ہسپتال کے اچانک دورے کے موقع پر مختلف شعبوں اور وارڈز کا معائنہ کر رہے تھے، وزیر اعلیٰ نے اپنے دورہ کے دوران امراض قلب، میڈیسن، گائنی، انستھیزیا، او پی ڈی، حادثات اور ایکسرے کے شعبوں کا معائنہ کیا، اس موقع پر مریضوں اور انکے تیمارداروں نے وزیر اعلیٰ کو اپنے درمیان پا کر خوشی کا اظہار کیا اور انہیں اپنے مسائل سے بھی آگاہ کیا۔وزیر اعلیٰ نے اس موقع پر کہا کہ حکومت نے سرکاری ہسپتالوں میں جدید آلات اور مشینری کی فراہمی کے لیے ایک ارب روپے کی خطیر رقم مختص کی ہے، اس کے باوجود سنڈیمن صوبائی ہسپتال میں وینٹی لیٹر مشینوں کی عدم دستیابی ناقابل برداشت ہے۔ انہوں نے کہا کہ وسائل کے صحیح مصرف کو ہر صورت کو یقینی بنایا جائے اس حوالے سے کسی قسم کی کوتاہی برداشت نہیں کی جائے گی۔ وزیر اعلیٰ نے بعض مریضوں کی جانب سے ہیپاٹائٹس کی ادویات نہ ہونے کی شکایت پر سیکریٹری صحت کو ہدایت کی کہ اس حوالے سے پلان تیار کیا جائے تاکہ اس موذی مرض میں مبتلا ہسپتالوں میں داخل مریضوں کو ضروری ادویات کی بروقت فراہمی یقینی ہو سکے، وزیر اعلیٰ نے انستھیزیا کے شعبہ میں ڈاکٹروں کی کمی کو دور کرنے اور اس شعبہ میں زیادہ سے زیادہ ڈاکٹروں کو تربیت کی فراہمی کی ہدایت بھی کی۔ او پی ڈی کے معائنہ کے دوران وزیر اعلیٰ نے اس شعبہ کی ضروری مرمت اور ڈاکٹروں کے لیے سہولیات کی فراہمی کی ہدایت کی، وزیر اعلیٰ نے مختلف وارڈز کے معائنے کے دوران وہاں زیر علاج مریضوں سے ان کی خیریت پوچھی اور ان سے انہیں فراہم کی جانے والی علاج و معالجہ کی سہولتوں اور ادویات کے حوالے سے دریافت کیا، وزیراعلیٰ نے ہسپتال کے آپریشن تھیٹرز کا معائنہ بھی کیا اور ہدایت کی کہ آپریشن تھیٹرز میں گنجائش میں اضافے کے ساتھ ساتھ جدید سہولتوں کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے، سرجیکل او پی ڈی کے معائنے کے دوران وزیر اعلیٰ کو بتایا گیا کہ یہاں اوسطاً روزانہ کی بنیاد پر 130سے 250تک چھوٹے بڑے آپریشن کئے جاتے ہیں، وزیر اعلیٰ نے موقع پر موجود ہسپتال کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ کو ہسپتال میں صحت و صفائی کی سہولتوں کو مزید بہتر بنانے ، ہسپتال میں تعینات ڈاکٹروں اور طبی عملے کی حاضری کو یقینی بنانے اور مریضوں کو علاج و معالجے کی بہتر سہولتوں کی فراہمی کی ہدایت کی۔ صوبائی وزیر صحت رحمت صالح بلوچ، وزیر اعلیٰ کے کوآرڈینیٹر احمد جان، پرنسپل سیکریٹری محمد نسیم لہڑی، سیکریٹری صحت بھی اس موقع پر موجود تھے۔ وزیر اعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے کہا ہے کہ جب تک ہم اپنے رویوں میں تبدیلی نہیں لائیں گے تب تک صوبے سے غربت اور جہالت کا خاتمہ ممکن نہیں ہو سکتا، اگر ہم اپنے آپ کو ٹھیک کر لیں تو بلوچستان میں تعلیمی انقلاب آ سکتا ہے، ہمارے وسائل کم ہیں تاہم دستیاب وسائل کو صحیح طریقے سے بروئے کار لا کر ترقی کی راہ ہموار کی جا سکتی ہے، ہمارے درمیان آج بھی ایسے عناصرموجود ہیں جو چند پیسوں کی خاطر تعلیم جیسے اہم شعبہ میں بھی میرٹ سے ہٹ کر تقرریوں اور تبادلوں میں ملوث ہیں، محکمے کی ان کالی بھیڑوں کا محاسبہ کیا جائیگا، ان خیالات کا اظہار انہوں نے محکمہ تعلیم اور یونیسف کے اشتراک سے سکولوں کے نظام کی نگرانی کے پروگرام کی تعارفی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ۔ صوبائی مشیر تعلیم سردار رضا محمد بڑیچ، صوبائی وزیر ڈاکٹر حامد خان اچکزئی کے علاوہ دیگر صوبائی وزرا، اراکین صوبائی اسمبلی ،چیف سیکریٹری بلوچستان سیف اللہ چٹھہ، سیکریٹری سیکنڈری تعلیم عبدالصبور کاکڑاور ضلعی افسران تعلیم بھی تقریب میں موجود تھے۔وزیر اعلیٰ نے کہا کہ یہ صوبہ ہم سب کا ہے اور یہاں کے بچے ہم سب کے بچے ہیں تعلیم حاصل کرنا ہر بچے کا حق ہے، اگر ہم اپنے بچوں کے لیے اب بھی کچھ نہیں کر سکے تو تاریخ ہمیں کبھی معاف نہیں کریگی، وزیر اعلیٰ نے کہا کہ یہ امر نہایت افسوسناک ہے کہ اسکولوں میں 3لاکھ بچوں کا بوگس اندراج کیا گیا ہے، جبکہ 9سو سکول موجود ہی نہیں لیکن ان سکولوں کے اخراجات صوبائی حکومت سے حاصل کئے جا رہے ہیں، وزیر اعلیٰ نے کہا کہ وہ بحیثیت وزیر اعلیٰ ہی نہیں بلکہ اس سر زمین کے فرزند کی حیثیت سے کہتے ہیں کہ اگرہم سب اپنے آپ کو ٹھیک کر لیں تو صوبے میں تعلیمی و معاشی انقلاب آجائے گا، انہوں نے کہا کہ ہم نے شعبہ تعلیم کی ترقی کے لیے تمام تر دستیاب وسائل مہیا کر رکھے ہیں، اس شعبے میں میرٹ کے قیام، نقل کے خاتمے اور اہلیت پر اساتذہ کی تعیناتی اور تبادلوں کو بھی یقینی بنایا گیا ہے اورہم اللہ کو حاضر ناظر جان کر کہتے ہیں کہ ہم نے این ٹی ایس کے ذریعے اساتذہ کی بھرتی ،تقرریوں اور تبادلوں میں کسی سے ایک پیسہ بھی نہیں لیا، تاہم اس کے باوجود اس بات کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ اب تک مطلوبہ نتائج سامنے کیوں نہیں آرہے اور کہاں کہاں نقائص اور خرابیاں موجود ہیں، جن کا دور کیا جانا ضروری ہے، وزیر اعلیٰ نے کہا کہ محکمہ تعلیم میں بہت سے ایماندار اور فرض شناس آفیسر موجود ہیں جنہیں وہ ذاتی طور پر جانتے ہیں اور ان سے انہیں بہت سی توقعات بھی وابستہ ہیں، وزیر اعلیٰ نے ضلعی آفسران تعلیم پر زور دیا کہ وہ اپنے رویوں میں تبدیلی لائیں اور اپنے اختیارات کو صحیح طریقے سے استعمال کر کے دنیا اور آخرت میں سرخرو ہوں ، وزیر اعلیٰ نے کہا کہ ہم بلوچستان کو نعروں اور تقریروں سے نہیں بلکہ شعور اور علم کے فروغ سے بدل سکتے ہیں، انہوں نے کہا کہ ہم سرکاری ملازمین کی تنخواہوں کی مد میں 160ارب روپے سے زائد دے رہے ہیں، جبکہ ترقیاتی مد میں صرف 40ارب روپے مختص ہیں، وزیر اعلیٰ نے کہا کہ میں نے آج تک کسی استاد کی تنخواہ بند کرنے کا نہیں کہا کیونکہ یہ مسئلے کا حل نہیں ،میری دلی خواہش ہے کہ ہر سکول کو تمام ضروری سہولتیں فراہم ہو سکیں لیکن وسائل کی کمی رکاوٹ ہے، لہذا دستیاب وسائل کو ہی بہتر طریقے سے استعمال کرنے کی ضرورت ہے، وزیراعلیٰ نے کہا کہ اگر تعیناتی، تقرری ، تبادلے اور خریداری پر ہم کمیشن نہیں لے رہے تو افسران کو بھی اس روش کو اپنانا ہوگا، انہوں نے کہا کہ ایسے اساتذہ کو معاف نہیں کیا جائیگا جو ہمارے بچوں اور ہمارے مستقبل کو تباہ کر رہے ہیں۔ محکمہ تعلیم میں سفارش ، بدعنوانی اور اقربا پروری کو ہرگز برداشت نہیں کیا جائے گا اور ان میں ملوث عناصر پر سختی سے ہاتھ ڈالا جائے گا۔ وزیر اعلیٰ نے کہا کہ وہ اساتذہ اور ضلعی افسران تعلیم سے دردمندانہ اپیل کرتے ہیں کہ وہ اپنے رویوں میں تبدیلی لائیں ، اپنے فرائض کو پہچانیں اور ہمارے بچوں کے مستقبل کو تباناک بنانے کے لیے اپنا کردار ادا کریں، آئین ہم مل کر صوبے کو جہالت اور تعلیمی پسماندگی سے بچائیں۔قبل ازیں سیکریٹری سیکنڈری تعلیم عبدالصبور کاکڑ نے سکولوں کے نظام کی نگرانی کے پروگرام کے حوالے سے بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ اس نظام کے نفاذ کا مقصد سکولوں کی کارکردگی اور اساتذہ اور بچوں کی حاضری پر نظر رکھنا ہے۔