نیٹو سربراہ جینز اسٹولٹن برگ نے خبر دار کیا ہے کہ یوکرین کی جنگ اگلے کئی برسوں تک جاری رہ سکتی ہے۔
جینز اسٹولٹن برگ کا یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب یورپی کمیشن کی جانب سے یوکرین کو یورپی یونین کے امیدوار کا درجہ دینے کی تجویز کے بعد روس نے یوکرین پر حملے تیز کر دیے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ہمیں اس حقیقت کے لیے تیاری کرنی چاہیے کہ اس جنگ میں برسوں لگ سکتے ہیں، ہمیں یوکرین کی حمایت میں دستبردار نہیں ہونا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ ’چاہے اخراجات زیادہ ہوں، نہ صرف فوجی امداد کے لیے بلکہ توانائی اور خوراک کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے پیش نظر بھی ہمیں پوری تیاری رکھنا ہوگی‘۔
رواں ہفتے کیف کا دورہ کرنے والے برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن نے بھی ایک طویل جنگ کے لیے تیاری کی ضرورت کے حوالے سے بات کی۔
بورس جانسن نے لندن کے سنڈے ٹائمز میں لکھا ’اس سے سے مراد یہ ہے کہ یوکرین کو حملہ آور کے مقابلے میں زیادہ تیزی سے ہتھیار، سازوسامان، گولہ بارود اور تربیت مل رہی ہو‘۔
انہوں نے لکھا ’وقت ایک اہم عنصر ہے، ہر چیز کا انحصار اس بات پر ہوگا کہ یوکرین اپنی سرزمین کا دفاع کرنے کی صلاحیت کو روس کی جانب سے حملہ کرنے کی صلاحیت سے زیادہ تیزی سے مضبوط بنا سکتا ہے یا نہیں‘۔
یوکرین کو جمعے کو ایک اہم تقویت ملی جب یورپی کمیشن نے اسے یورپی یونین کے امیدوار کا درجہ دینے کی سفارش کی، جس کی یورپی یونین کے ممالک کی جانب سے رواں ہفتے سربراہی اجلاس میں توثیق متوقع ہے۔
اس سے یوکرین روس کے 24 فروری کے حملے سے پہلے کی اپنی خواہش کو پورا کرنے کی راہ پر گامزن ہو جائے گا، چاہے بیشک رکنیت میں کئی سال لگ جائیں۔
دوسری جانب یوکرین پر روسی حملے تیز ہو گئے، یوکرینی فوج نے بتایا کہ صنعتی شہر سیویروڈونٹسک کو ایک بار پھر بھاری گولہ باری اور راکٹ فائر کا سامنا کرنا پڑا۔
واشنگٹن میں قائم تھنک ٹینک ’انسٹی ٹیوٹ فار اسٹڈی آف وار‘ کے تجزیہ کاروں نے لکھا کہ ’روسی افواج ممکنہ طور پر آئندہ ہفتوں میں سیویروڈونٹسک پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہو جائیں گی لیکن اس کے لیے انہیں اس چھوٹے سے علاقے میں اپنی زیادہ تر دستیاب افواج کو وقف کرنا ہوگا‘۔
لوہانسک کے گورنر سرہی گائیڈائی نے یوکرین ٹیلی ویژن کو بتایا کہ ’تمام روسی دعوے جھوٹے ہیں کہ وہ قصبے پر کنٹرول کرچکے ہیں، وہ قصبے کے مرکزی حصے پر کنٹرول کرچکے ہیں لیکن پورے قصبے پر نہیں‘۔
سرہی گائیڈائی نے ٹیلی گرام میسجنگ ایپ پر کہا کہ دریا کے اس پار موجود جڑواں شہر میں رہائشی عمارتیں اور نجی مکانات تباہ ہو چکے ہیں، لوگ سڑکوں پر اور پناہ گاہوں میں مر رہے ہیں۔
یوکرین کی فوج نے تسلیم کیا کہ ’دشمن کو سیویروڈونٹسک کے جنوب مشرق میں واقع گاؤں میٹولکین میں جزوی کامیابی حاصل ہوئی ہے‘۔
روس کی سرکاری خبر رساں ایجنسی ’ٹاس‘ نے روسی حمایت یافتہ علیحدگی پسندوں کے لیے کام کرنے والے ایک ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ میٹولکائن میں بہت سے یوکرینی جنگجوؤں نے ہتھیار ڈال دیے ہیں۔
یوکرینی حکام نے بتایا کہ روسی میزائل نے شمال مغرب میں ضلع ایزیم میں ایک گیس ورکس کو نشانہ بنایا اور دوسرے سب سے بڑے شہر خارکیو کے ایک مضافاتی علاقے پر برسنے والے روسی راکٹ میونسپل کی عمارت سے ٹکرا گئے جس سے آگ لگ گئی لیکن کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔
روسی جارحیت کے خلاف اپنی بے باک مزاحمت سے دنیا کو متاثر اور عالمی احترام حاصل کرنے والے یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی نے کہا کہ انہوں نے کیف سے تقریباً 550 کلومیٹر جنوب میں میکولائیو کے علاقے میں جنوبی فرنٹ لائن پر فوجیوں سے ملاقات کے لیےدورہ کیا۔
انہوں نے ٹیلیگرام میسج ایپ پر ایک ویڈیو میں کہا ’میں نے اپنے محافظوں، فوج، پولیس، نیشنل گارڈ سے بات کی‘۔
ولادیمیر زیلنسکی نے کہا کہ ’وہ سب ڈٹے ہوئے ہیں، ان سب کو ہماری جیت پر کوئی شبہ نہیں ہے، ہم اہنی زمین کسی کے حوالے نہیں ہونے دیں گے اور جو کچھ ہمارا ہے وہ واپس لے لیں گے‘۔
ایک اور ویڈیو میں ولادیمر زیلنسکی کو خاکی ٹی شرٹ میں تمغے نوازتے ہوئے اور خدمتگاروں کے ساتھ سیلفی لیتے ہوئے دیکھا گیا۔