|

وقتِ اشاعت :   October 30 – 2015

ویانا : شام کی صورتحال پر ویانا میں مذاکرات جاری ہیں جس میں امریکی وزیر خارجہ جان کیری، ایران، سعودی عرب، مصر، روس اور ترکی کے نمائندے شریک ہیں۔ ویانا میں شام کے مسئلے پر ہونے والے بین الاقوامی مذاکرات میں بات کرتے ہوئے سعودی وزیر خارجہ عادل الجبیر کا کہنا تھا کہ ایران کو شام کا تنازع حل کرنے کے لیے بشار الاسد کی اقتدار سے علیحدگی کو قبول کرنا ہوگا۔ اس موقع پر اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے کہا ہے کہ شام کے تنازع کے حل کے لیے مذاکرات میں ایران کی شمولیت سے کافی حوصلہ افزائی ہوئی ہے۔ انھوں نے عالمی رہنماؤں سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنے رویوں میں لچک دکھائیں اور تنازعے کے حل کے لیے سنجیدہ کوششیں کریں۔ قبل ازیں العربیہ ڈاٹ نیٹ نے ایران کے نائب وزیر خارجہ حسین عبد اللھیان کے ایک ٹی وی انٹرویو کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ایران نے شام میں سیاسی عمل کو آگے بڑھانے اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کی تو کئی بار بات کی ہے، مگر ہم ایسی کسی بات کا حصہ نہیں بنیں گے جس میں صدر بشار الاسد کے سیاسی مستقبل پر کوئی مک مکا کیا جا رہا ہوگا۔ ان کا کہنا تھا کہ دشمن بشارالاسد کو شام کی سیاست سے ’مائنس‘ کرنا چاہتا ہے، لیکن ویانا مذاکرات میں بشارالاسد کے سیاسی مستقبل پر بات چیت ’سرخ لکیر‘ سمجھی جائے گی۔
واضح رہے کہ ایران پہلی مرتبہ اس طرح کے مذاکرات کا حصہ بن رہا ہے۔
دو روز قبل سعودی عرب کے وزیر خارجہ عادل الجبیر کا پریس کانفرنس کے دوران کہنا تھا کہ ویانا مذاکرات میں سعودی عرب کی شرکت کا مقصد شامی حکومت کے حامی ممالک روس اور ایران کو امن معاہدے کے لیے رضامند کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ شام کے مسئلے کا کوئی سیاسی حل نکالا جائے اور مذاکرات کا مقصد اس حوالے سے ایران اور روس کے ارادوں کو جاننا ہے۔ خیال رہے کہ اس سے قبل بھی شام کے بحران کے حل کے لیے ویانا اور جنیوا میں متعدد بار عالمی طاقتیں سر جوڑ کر بیٹھتی رہی ہیں مگر آج تک کوئی اہم پیش رفت نہیں ہوسکی ہے۔ واضح رہے کہ شام میں تقریباً چار سال قبل بشار الاسد اور اپوزیشن جماعتوں کے درمیان سیاسی کشیدگی کے باعث خانہ جنگی کا آغاز ہوا تھا۔ امن و امان کی صورتحال کے خراب ہونے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے شدت پسند تنظیم داعش نے بھی شام میں اپنے قدم جماتے ہوئے حملے شرع کیے اور شام کے ساتھ ساتھ عراق میں بھی بڑے رقبے پر قبضہ کرکے گزشتہ برس خود ساختہ خلافت قائم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے ابوبکر البغدادی کو اپنا سربراہ مقرر کیا تھا۔ داعش کی پیش قدمی کو روکنے کے لیے شامی حکومت کی جانب سے اس کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا جاتا رہا لیکن حکومت کو خاطر خواہ کامیابی نہ مل سکی۔ خانہ جنگی اور زندگی کو درپیش شدید خطرات کے باعث شام کے لاکھوں شہری ترکی کے سرحدی علاقوں اور دیگر یورپی ممالک میں پناہ لینے پر مجبور ہوگئے جبکہ ہزاروں شہری اس خانہ جنگی کے سبب ہلاک بھی ہوچکے ہیں۔ داعش کی جانب سے شام کے کئی علاقوں پر کنٹرول حاصل کرنے اور عام شہریوں کو ہلاک کرنے کے بعد امریکا اور اس کے اتحادی ممالک نے داعش کے خلاف فضائی کارروائی کا آغاز کیا تاہم امریکا اس تمام صورتحال کا ذمہ دار بشار الاسد اور ان کی پالیسیوں کو ٹھہراتا رہا ہے اور ان سے مطالبہ کرتا رہا ہے کہ وہ حکومت سے الگ ہو جائیں۔ ایک ماہ قبل بشار الاسد کی درخواست پر روس نے بھی شام میں شدت پسندوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنانا شروع کیا جس پر امریکا کی جانب سے اسے تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔