|

وقتِ اشاعت :   November 6 – 2015

پاکستان بھر میں پولیس کے مظالم اور تشدد کے چرچے مشہور ہیں ۔ خصوصاً پنجاب پولیس سب سے آگے ہے آئے دن پنجاب پولیس کے کارنامے ٹی وی اسکرین کی زینت بنتے رہتے ہیں، پولیس ہے کہ حکمرانوں کے قابو سے باہر ہے، قابو میں بھی کیوں آئے کیونکہ حکمران اپنی حکمرانی کو طول دینے کے لئے پولیس کا بے شرمی سے استعمال کرتے ہیں ۔ بہت زیادہ پڑھے لکھے اور نیک افسران پولیس فورس میں موجود ہیں مگر پولیس میں ان کو نظر انداز کیا جاتا ہے ۔ حکمرانوں کو کرپٹ اور بے ایمان پولیس افسران زیادہ پسند ہیں کیونکہ وہ ہر کام کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اس لئے ان کو پولیس سروس میں ترجیح دی جاتی ہے کم و بیش پولیس یہی کام دوسرے صوبوں میں بھی کرتی ہے۔ پنجاب کے بعد سندھ کا نمبر آتا ہے وہاں بھی حکمران پولیس افسران کی چاپلوسی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔ راقم کی موجودگی میں ایک سابق وزیراعظم نے گھی کے ڈبے ،گندم وغیرہ علاقے کے تھانے دار کو بھجوایا تاکہ علاقے کا تھانے دار ملک کے ایک بہت بڑے لیڈر سے خوش رہے ۔ فرمائش پر ان کے احکامات صحیح یا غلط بجا لائے، قاتلوں کو رہا کردے اور مخالفین کے خلاف جھوٹے مقدمات درج کرائے ۔سندھ اور پنجاب میں تھانہ کلچر عام ہے اسی کلچر کی وجہ سے سندھ اور پنجاب میں حکمران کمالات دکھاتے رہتے ہیں ۔ البتہ کے پی کے میں روایات بہتر ہیں کرپشن اور دیگر جرائم سندھ اور پنجاب سے کم ہے ۔ وجہ اکثر پولیس افسران حکومت کے سامنے ،سماج کے سامنے جوابدہ ہوتے ہیں۔ راقم نے دیکھا ہے پولیس افسران جہاں اور جس ماحول میں رہتے ہیں انکو وہاں عزت و احترام سے دیکھا جاتا ہے۔ جو کرپٹ ہے وہ سماج میں کم ذات سے بھی زیادہ ذلیل تصور کیا جاتا ہے ۔ رہی بلوچستان کی بات بلوچستان میں پولیس کا ایریا بہت ہی کم ہے بلکہ چند بڑے شہروں اور قصبوں تک محدود ہے ۔ جہاں پر جرائم کی شرح بہت زیادہ ہے خصوصاً منظم جرائم زیادہ تر شہروں میں ہوتے ہیں ۔ دیہاتوں میں یا دور دراز قبائلی علاقوں میں بلوچستان لیویز جو ایک مقامی فورس ہے بلکہ ایک کیمونٹی پولیس ہے جو اپنے سماج کا دفاع کرتاہے اور جرائم پیشہ افراد کے خلاف کارروائی کرتا ہے چونکہ بلوچستان لیویز مقامی سماج کا ایک حصہ ہے اور وہ اسکا دفاع کرتا ہے لوگ ان پر نگاہ رکھتے ہیں یہی ان کا سب سے بڑا احتساب ہے ہر لیویز کا سپاہی مقامی سماج کا حصہ ہے باہر سے نہیں آیا جو دکھاتے پیتے گھرانے کے خلاف جھوٹے مقدمات بنائے اور رقم بٹورے ‘ کوئی سیاسی شخصیت یا قبائلی شخصیت بد نامی کے خوف سے لیویز کے سپاہیوں یا افسروں سے غلط کام نہیں لے سکتا کیونکہ سپاہی یا افسر سماج کے سامنے جوابدہ ہے اس لئے وہ فوراً نام بتا دیتاہے کہ فلاں شخص یا افسر کا غیر اخلاقی اور غیر قانونی حکم تھا جو اس نے غلط طورپر بجا لایا ۔چونکہ پوری فورس مقامی افراد پر مشتمل ہے اور ایک دلیر فورس ہے اس کی وجہ سے ان علاقوں میں جرائم کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے ۔ لیویز مقامی سپاہیوں اور افسران پر مشتمل ہے ان کے پاس سماج کی مکمل اطلاعات ہوتی ہیں کہ کہاں کیا ہورہا ہے اور کون کیا کررہا ہے ان سے کوئی بات ڈھکی چھپی نہیں ہے جرائم پیشہ افراد ان سے خوفزدہ رہتے ہیں ۔سرکاری احکامات پر زبانی کلامی عمل درآمد ہوجاتا ہے اگر کسی سے کہا جائے کہ وہ گرفتار ہے تو وہ لیویز کے سپاہی کے ساتھ ایک شریف انسان کی طرح چل پڑتاہے اور ان کو ہتھکڑی پہنانے کی ضرورت نہیں پڑتی ۔مگر بلوچستان کے غیر معمولی حالات نے اس ادارہ کو بھی نشانہ بنایا ہے باہر سے آنے والے سیکورٹی کے لوگ لیویز پر اعتماد نہیں کرتے لہذاا ن کے درمیان تعاون نہیں ہوتا ۔پہلی وجہ یہ ہے کہ وہ غلط کام نہیں کرتے نہ کسی کو گرفتار کرتے ہیں اورنہ ہی دیکھتے ہی گولی مارتے ہیں ۔ وجہ۔۔۔ وہ مقامی سماج کے سامنے جوابدہ ہے ۔ دیگر اداروں کے اہلکار سماج کے سامنے جوابدہ نہیں، اس لئے وہ سب کام کر لیتے ہیں ۔ضرورت اس بات کی ہے کہ لیویز فورس کو جدید خطوط پر دوبارہ منظم کیا جائے ،اس کی زیادہ بہتر تربیت کی جائے ،بہتر اسلحہ سے لیس کیا جائے ،ان کے مقامی افسران کو پی ایس پی افسران کی طرز پر تربیت دی جائے تاکہ وہ بلوچستان میں ایف سی کا نعم البدل ثابت ہوں اور ساتھ ہی سرحدی علاقوں کا دفاع بھی بہتر انداز میں کر سکیں ۔