اسے کئی قسم کی مشکلات کے باوجود زیادہ سے زیادہ علم حاصل کرنے، مختلف علوم پر مزید تحقیق کرنے اور ان پر کتابیں لکھنے کا شوق بلکہ جنون تھا اس لیے اکثر و بیشتر وہ دنیا کے تمام کام کاج چھوڑ کر تنہائی میں صرف علمی کام کرنے میں مصروف ہوجاتے تھے لیکن زندگی گزارنے کے لئے انسان کو روپے پیسے کی بھی ضرورت ہوتی ہے علمی اور تحقیقی کام سمیت دنیا کے دیگر کام بھی انسان اس وقت زیادہ بہتر اور پر سکون طریقے سے کرسکتا ہے جب اس کو کھانے،پینے اور پہننے کی طرف سے سکون حاصل ہو۔ وہ پوری توجہ اور لگن سے علمی کام کرنا چاہتا تھا لیکن ضروریات زندگی اس کی راہ میں رکاوٹ تھیں۔ ضروریات زندگی کے بندوبست کے سلسلے میں اس کا کافی وقت ضائع ہوجاتا تھا۔اس نے کافی غور فکر کے بعد ضروریات زندگی کے لیے ایک بہترین حل نکالا تاکہ کچھ روپے پیسے بھی ہاتھ آئیں اور علمی کام بھی ہوتا رہے۔ اس کی صورت انہوں نے یہ نکالی کہ چند پرانی کتابیں نقل کر کے شوقین لوگوں کو بیچتے اور اس سے اپنا گزر بسر کرلیتے تھے اس زمانے میں چونکہ کتابیں چھپتی نہ تھیں اس لئے انہیں ہاتھ سے لکھا جاتا تھا۔وہ سال بھر میں صرف تین کتابیں نقل کر کے ڈیڑھ سو دینار میں بیچ دیتے اور اسی رقم سے سال بھر کے لئے اپنے کھانے پینے اور پہننے کا انتظام کر لیتے۔ان کتابوں کے نام یہ تھے۔(1)اقلیدس (2) متوسطات (3) مجسطی۔
وہ دن کے تھوڑے سے حصے میں یہ کتابیں نقل کرتے اور باقی وقت مطالعہ،تجربہ،تحقیق،غور و فکر اور کتابیں تصنیف کرنے میں گزارتے۔یہ جس شخصیت کا ہم تذکرہ کررہے ہیں وہ عالم اسلام کے مشہور سائنسدان اور علم بصریات کے امام ” ابو علی الحسن ابن الحسن ابن الہیثم” تھے۔ جسے مختصراً ابن الہیثم کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یورپ میں اسے”ال ہیزن” (Alhazen) کہا جاتا ہے۔ ابن الہیثم 965 ء میں بصرہ میں پیدا ہوئے اور 1039 ء میں قاہرہ میں فوت ہوئے۔
ابن الہیثم کی زیادہ تر کتابیں سائنس کی مختلف شاخوں پر ہیں۔ اس نے طبیعات،طب،ہیئت،ریاضی،
انجینئرنگ،منطق،فلسفہ اور بصریات پر تقریبا ًچھوٹی بڑی 200 کے قریب کتابیں لکھیں۔یوں تو اس نے کئی علوم پر کتابیں تصنیف کیں لیکن اس کو خاص شہرت علم بصریات پر تحریر کردہ کتاب “کتاب المناظر” سے حاصل ہوئی۔اس کتاب میں روشنی، آنکھ کی بناوٹ، بینائی اور بہت سی ایسی باتیں انہوں نے بیان کی ہیں جو اس موضوع پر پہلے کسی نے بھی بیان نہیں کی تھیں۔اگر چہ اسے اپنی زندگی میں غربت،تنگدستی اور کئی مسائل کا سامنا کرنا پڑا لیکن اپنے علمی کارناموں اور کتابوں کی وجہ سے آج تک اس کا نام زندہ ہے۔ بلاشبہ یہ علم ہی کی طاقت تھی جس نے ابن الہیثم جیسے گم نام شخص کو نہ صرف ان کے دور میں عروج اور ناموری عطا کی بلکہ آج تک تاریخ کے صفحات میں اس کا نام ایک روشن علمی ستارے کی مانند چمک رہا ہے۔
اس خوابدان ارضی پر کئی ایسی شخصیات جلوہ گر ہوئیں جن کی ابتدائی زندگی گمنامی، تکلیفوں اور پریشانیوں سے عبارت تھیں لیکن پھر علم کی طاقت اور علم سے وابستگی نے انہیں ستاروں سے اونچا مقام عطا کیا اور اسی وجہ سے آج بھی ان کے نام،کام اور مقام تاریخ میں درخشاں ستاروں کی مانند چمک رہے ہیں۔
کسی مفکر نے علم کی طاقت اور اس کی اہمیت کو بیان کرتے ہوئے بجا طور پر درست کہا تھا کہ علم ہی وہ واحد طاقت ور ہتھیار اور ذریعہ ہے جو کسی بھی غریب کے بچے کو ان کی جھونپڑیوں اور کھیتوں سے اٹھا کر کسی ملک کے تخت پر بٹھا سکتا ہے اور ایک قلم اور کتاب میں اتنی طاقت ہے کہ وہ پوری دنیا کو تبدیل کر سکتے ہیں۔
ایلیکس ہیلے( 1992-1921 ) مشہور ناول نگار تھے اس کے ناول روٹس نے پوری دنیا میں تہلکہ مچا دیا تھا سیاہ فاموں کی زندگی پر مبنی اس ناول کو تحقیقی اور تخلیقی ادب میں سب سے زیادہ بکنے والی کتاب ( بیسٹ سیلر بک ) کا درجہ حاصل ہے۔ کئی صدیاں قبل ایلیکس کے آبائو اجداد کو افریقہ سے غلام بنا کر امریکہ لایا گیا تھا اور پھر کئی صدیوں تک ان کی کئی نسلیں اس غلامی کی زندگی میں مرکھپ گئیں تھیں اور مزید ان کی کتنی نسلوں کو غلامی کے اس عذاب میں سے گزرنا تھا کہ علم نے ان کی زندگیوں میں انقلاب برپا کردیا۔ ایک دن کپاس کے کھیت میں کام کرتے ہوئے ایلیکس کی دادی نے اس کے دادا سے کہا تھا کیوں نہ ہم اپنے بیٹے کو سکول میں داخل کروا دیں۔ اس کے دادا نے اپنی بیوی کی اس رائے کو پسند کیا اور یوں ایلیکس کے والد کو سکول میں داخل کر وادیا گیا ایلیکس کا والد زیادہ تعلیم حاصل نہیںکر سکا لیکن اس نے اپنی ماں کے مشن کو جاری رکھا اور ایلیکس کو کالج تک تعلیم دلایا۔ جب ایلیکس کا مشہور زمانہ ناول روٹس مقبولیت کی انتہا کو پہنچا تو کسی نے ان سے پوچھا تھا تمہاری زندگی کا حیرت انگیز واقعہ کیا ہے تو ایلیکس نے نے ہنس کر جواب دیا تھا “اسکول”
جی ہاں اگر ایلیکس ہیلے سکول نہیں جاتا، کتاب اس کا بہترین دوست اور قلم اس کا ہتھیار نہیں ہوتا تو شاید آج اس کا نام بھی کوئی نہیں جانتا۔
دنیا کی تاریخ میں جس انسان نے بھی کتاب کو بہترین دوست، قلم کو طاقتور ترین ہتھیار اور علم کو ایک انتہائی مفید طاقت سمجھ لیا تو اس نے اپنی زندگی میں بلند مقام حاصل کرلیا۔ اگر کوئی بھی انسان اپنی زندگی میں علم کی راہ پر چل کر بعض وجوہات کی بنا پر شہرت،مقبولیت اور بلند مقام حاصل نہیں کر پاتا تو اس کے دنیا سے رخصت ہوجانے کے بعد اس کا علم اس کے نام کو تاریخ میں ہمیشہ زندہ رکھتا ہے۔ تاریخ میں ایسی متعدد مثالیں موجود ہیں۔
دنیا کے اکثر غریب اور گمنام لوگوں کو علم نے شہرت اور مقام عطا کیا ہے۔ مشہور مسلمان سائنسدان ابو ریحان البیرونی ایک گم نام گھرانے میں پیدا ہوئے تھے لیکن صرف علم کی طاقت کی وجہ سے اپنے دور سے لیکر آج تک دنیا کے عظیم ترین انسانوں میں شمار ہوتے ہیں۔
نیوٹن کا باپ ایک کسان تھا لیکن وہی نیوٹن اپنے علم کی بدولت کشش ثقل دریافت کرنے والا ٹھہرا۔
ایڈورڈ جینر جسے چیچک کے ٹیکے کا موجد سمجھا جاتا ہے اس کا باپ ایک پادری تھا۔
جیمز واٹ جس نے بھاپ سے چلنے والے انجنوں کی تیاری،بہتری اور ترقی میں نمایاں کردار ادا کیا تھا اس کا باپ ایک معمار تھا۔
ریل گاڑی کے موجد جارج اسٹیفن سن کا والد ایک انتہائی غریب آدمی تھا اور کوئلے کے کان میں کوئلہ ڈھوتا تھا۔
مشہور سائنسدان مائیکل فیراڈے جس کی سب سے بڑی ایجاد ڈائنمو (Dynamo) ہے اور اسی کی مدد سے بجلی تیار کی جاتی ہے۔ اسی فیراڈے کا والد ایک لوہار تھا۔ فیراڈے غربت کی وجہ سے بچپن میں ایک کتاب فروش کے پاس ملازمت کرتا تھا۔
ٹیلی گراف اور برقی تار کے موجد سیموئیل فنلے مورس کا تعلق ایک انتہائی غریب خاندان سے تھا اس کی ایجاد نے جدید پیغام رسانی کے شعبے میں ایک انقلاب برپا کردیا تھا اور ڈاک کے پرانے نظام کی بجائے برقی تار کا جدید تیز ترین نظام متعارف کروایا تھا۔
ہیلی کاپٹر کا موجد
آئی گورسکو رسکی جب پہلے پہل امریکا آیا تھا تو وہ بہت غریب تھا اور بڑی تنگ دستی کی زندگی بسر کرتا تھا۔
عظیم یونانی فلسفی سقراط جس نے افلاطون جیسے شاگرد پیدا کئے اور پھر اس کے شاگرد افلاطون نے ارسطو جیسا نابغہ روزگار شخصیت پیدا کی اسی سقراط کا باپ ایک سنگتراش تھا ،سقراط خود بھی سنگتراشی کا کام کرتا تھا۔
چھتیس برس کی عمر میں نوبل پرائز جیتنے اور پھر آٹھ برس بعد دوسرا نوبل پرائز حاصل کرنے، 100 سے زائد اعزازی ڈگریاں اور بیسیوئوں دیگر انعامات اور تمغے حاصل کرنے والی عظیم خاتون سائنسدان میری کیوری کے والد انتہائی غریب تھے۔میری کیوری نے اپنی اور اپنی بہن کی تعلیم کو جاری رکھنے کے لئے یہ حکمت عملی اپنائی کہ وہ پہلے نوکری کرکے اپنی بہن برونیا کو پڑھائے گی اور جب برونیا کی تعلیم مکمل ہوجائے گی تو وہ ملازمت کرکے میری کی پڑھائی کا خرچہ برداشت کریگی۔ دونوں نے اسی طرح کرکے اپنی تعلیم مکمل کیں۔
ولیم شیکسپیئر جسے انگریزی ادب کا بے تاج بادشاہ سمجھا جاتا ہے۔اسی شیکسپیئر کو اپنے بچپن میں مالی مجبوریوں کی وجہ سے تیرہ سال کی عمر میں تعلیم ترک کرنا پڑا تھا۔اس کا والد دستانے بنانے کے علاوہ کیتی باڑی کا کام کرتا تھا شیکسپیئر اپنے والد کے ہمراہ بھینسوں کا دودھ دوہتا،بھیڑیں چراتا اور اپنے والد کے ہمراہ چمڑا صاف کرتا تھا۔
وہ کونسی طاقت تھی جس نے ان گمنام،مفلس اور تنگدست انسانوں کو وہ مقام عطا کیا کہ آج سینکڑوں بلکہ ہزاروں سال گزرنے کے باوجود بھی یہ لوگ تاریخ میں زندہ ہیں۔ بلاشبہ یہ علم کی طاقت تھی جس نے انہیں یہ مقام و مرتبہ عطا کیا کہ یہ لوگ آج تک دنیا والوں کے لئے روشن مثال بنے ہوئے ہیں۔ یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے اپنی پوری زندگی علمی،تحقیقی اور تجرباتی کاموں میں صرف کیا۔ جس کی وجہ سے آج کئی صدیاں گزرنے کے باوجود ان کا نام دنیا میں عزت و احترام کے ساتھ لیا جاتا جاتا ہے۔اگر آپ بھی اپنے نام کو ہمیشہ زندہ رکھنا چاہتے ہیں تو پھر علم سے لو لگائیے،علم کی طاقت کو پہچانیے اور خوب علم حاصل کیجئے۔