کوئٹہ: بلوچستان نیشنل پارٹی کے مرکزی پریس ریلیز کے مذمتی بیان میں پارٹی ضلع بارکھان کے جنرل سیکرٹری صاحب جان کھیتران کیخلاف جھوٹے مقدمے کی شدید الفاظ میں مذمت کی اور پارٹی بیان میں کہا گیا کہ ایسے من گھڑت جھوٹے مقدمات کا مقصد پارٹی کی سیاسی مقبولیت سے بہت سے لوگ خائف ہیں لیکن ایسے اوچھے ہتھکنڈوں سے پارٹی کے دوستوں کے بلند حوصلوں کو کمزور کرنا ممکن نہیں ضلعی انتظامیہ کے ارباب و اختیار غیرجانبداروں کا انتظامی امور چلائے پارٹی ورکروں کیخلاف ہونیوالی انتقامی کارروائیوں پر خاموش نہیں رہے گی دریں اثناء پارٹی کے مرکزی بیان میں کہا گیا کہ 2016ء کی متوقع مردم شماری خانہ شماری کو 40 لاکھ افغان مہاجرین کی موجودگی میں کسی قسم کی مردم شماری خانہ شماری قبول نہیں کریں گے بیان میں کہا گیا کہ ماضی اور موجودہ حکمرانوں کی پالیسیوں میں کوئی خاطرخواہ افغان مہاجرین کے متعلق پالیسی تبدیلی نہیں ہوئی جبکہ دوسری جانب انہی افغان مہاجرین کی وجہ سے بلوچستان میں مذہبی جنونیت انتہاء پسندی و دیگر سماجی مسائل عوام کے انہی کی وجہ سے درپیش ہیں لیکن اس کے باوجود حکمران بلخصوص بلوچستان میں موجودہ جعلی حکومت اب بھی لاکھوں کی تعداد میں افغان مہاجرین کے انخلاء میں رکاوٹ بن رہی ہے اور بلوچستان حکومت کی ارباب و اختیار غیرقانونی طریقے سے نادرا ‘پاسپورٹ آفس پر سیاسی دباؤ ڈال رہے ہیں کہ جعلی شناختی کارڈ کے اجراء کو مزید بڑھایاجائے جبکہ ایک سال قبل نیب کی جانب سے نادرا کے اہلکاروں جنہوں نے ساڑھے پانچ لاکھ خاندانوں کے حوالے سے جن کے شناختی کارڈ بنائے گئے ہیں اسی پاداش میں کوئٹہ پشتون بلیٹ کے نادرا کے سینٹروں پر چھاپے مارے گئے اور بہت سے جال سازی کے ثبوت سامنے لائے گئے ہیں ان اہلکاروں کو سزائیاں بھی ہوئیں بیان میں کہا کہ مرکزی حکومت حتیٰ کہ خیبرپختونخوا و دیگر صوبوں نے افغان مہاجرین سے متعلق واضع پالیسی اختیار کی ہے تاکہ ان کے انخلاء کو یقینی بنایا جاسکے لیکن بلوچستان میں 2013ء کے جعلی فراڈ اور تاریخی بدیانتی پر منبی حکومت اب مردم شماری میں ساڑھے پانچ لاکھ خاندانوں کو شامل کرکے بلوچوں کو اپنی ہی سرزمین میں اقلیت میں تبدیل کرنا چاہتے ہیں ایک جانب حکمران یہ دعویٰ کرتے نہیں تھکتے کہ ہم بلوچوں کے زخموں پر مرہم اور بلوچستان کے مسئلے کو حل کریں گے تاکہ ماضی میں ہونیوالی ناانصافیاں اور احساس محرومی کسی حد تک کم ہو سکے لیکن مردم شماری میں مرکزی حکومت اسٹیبلشمنٹ اب بھی ان 40 لاکھ افغان مہاجرین کو برداشت کرنے پر تلے ہیں اور بلوچوں کے تحفظ اور خدشات جو مختلف حوالوں سے پارٹی نے بارہا مختلف فورمز پر کئے ہیں انہیں ختم کرنے اور افغان مہاجرین کو باعزت طریقے سے ان کے وطن واپسی بھیجنے کیلئے کوئی اقدامات ہوتے نظر نہیں آتے بیان میں کہا گیا کہ 2011ء میں اسلام آباد میں سیکرٹری شماریات نے بلوچستان میں خانہ شماری سے متعلق جس باضطگیوں کو میڈیا کے سامنے لائیں انہیں بھی حکمران نظر انداز کررہے ہیں جس میں واضع طورپر سیکرٹری شماریات نے کہا کہ بلوچستان میں بڑے پیمانے پر افغان مہاجرین کو خانہ شماری کا حصہ بنایا گیا ہے جس کی وجہ سے قلعہ عبداللہ ‘ لورالائی ‘ ژوب ‘ پشین میں 3 سو سے ساڑھے 4 سو فیصد آبادی میں اضافہ دکھایا گیا ہے جو ممکن نہیں بیان میں کہا گیا کہ ملکی و بین الاقوامی قوانین اس بات کی ہرگز اجازت نہیں دیتے کہ اتنی بڑی تعداد میں غیر ملکیوں کو خانہ شماری و مردم شماری میں شامل کیا جائے بلوچستان یتیم خانہ نہیں جس کا جی چاہئے وہ یہاں کے سرکاری کارڈ بنائیں ان کی موجودگی میں مردم شماری قبول نہیں کریں گے ۔