کوئٹہ: جمعیت علماء اسلام کے بلوچستان اسمبلی میں پارلیمانی و اپوزیشن لیڈر مولانا عبدالواسع نے کہا ہے کہ صوبے میں پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ کی ذمہ داریاں اسے شخص کے پاس ہے جو کہ خود العلی اعلان کہہ چکے ہیں کہ 700ملازمین کو تنخواہیں دینا ان بس میں نہیں ہے جن میں 500کے قریب صرف بلوچستان ڈیویلپمنٹ اتھارٹی کے ہے جو کہ گزشتہ 15سالوں سے کام کررہے ہیں اگر موجودہ حکومت حقیقتاً اصلاحات کیے ہیں یہ خود فرماتے ہیں کہ چیف منسٹر اور حکومت نے محکموں کو پاؤں پر کھڑا کردیا بے ساکھیوں پر چلنے والی حکومتوں نے بھی 700ملازمین کی تنخواہوں کو بوجھ نہ کہا ۔یہ بات انہوں نے بی ڈی اے ملازمین کی ایک وفد سے بات چیت کرتے ہوئے کہی‘انہوں نے کہاکہ حیرت کا مقام ہے کہ اربوں روپے تولیپس کردئیے گئے ہیں بجائے یہ کہ اتنی رقم صوبے کی تعمیر و ترقی کیلئے استعمال ہوتی اور اس سے عوام کو مستفید کیا جاتا اب حکومت نے سرکاری ملازمین کو حکومت کیلئے سب سے بڑا خطرہ قرار دے رہی ہیں جس شخص نے پورے صوبے کی پی ایس ڈی پی بنانی ہے اگر وہ کہیں کہ700ملازمین ان کی حکومتی معاملات کی راہ میں رکاوٹ ہے جس میں 500کے قریب صرف بی ڈی اے کے ملازمین ہے جس کو ماضی میں معاشی طور پر کمزور حکومتیں بھی تنخواہیں ادا کررہی تھیں اگر ان کو تنخواہ دینے میں ناکامی ہے تو ایسے حکومت کا تو خداحافظ ہو انہوں نے کہا کہ وہ حکومت سے پوچھتے ہیں کہ 700ملازمین کو مسائل کی جڑ قراردینے والے صوبائی حکومت کو اپنے 18وزیر و مشیر کی دو کروڑ سے زائد صرف تنخواہ کی مد ماہانہ یاد نہیں ہیں کہ وہ لوگوں کو بے روزگار کرنے پر تلی ہوئی ہے اس قوم پرستوں کا دعویٰ تھا کہ وہ عوام کو روزگار فراہم کرینگے کیا آج وہ دعویٰ بدل ہوکر غریب ملازمین سے روزگار چھینو نعرے میں تبدیل ہوگیا ہے انہوں نے کہاکہ وہ حیرت محسوس کرتے ہیں کہ وہ ایسے حکومت کے اپوزیشن لیڈر کے طور پر کام کررہے ہیں کہ جن کے پاس از خود تو کوئی منصوبہ سوچ و فکر رہی نہیں ماضی کو موردالزام ٹہرا کر یہ تاثر دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ ماضی میں جو ہوا جو لوگ بھرتی ہوئے وہ اس قوم اور صوبے کے نہیں ہے یعنی کسی دوسرے صوبے سے سابق حکومتیں نے ان کو اٹھا لا کر یہاں روزگار دیا وہ بلوچستانی نہیں اگر وہ بلوچستانی نہیں تو بیشک حکومت اس کو برطرف کریں نہ کہ مخصوص اپنی نظریات کے نہ ہونے کی وجہ سے ان کو خود سے کم تر بلوچ اور پشتون کہہ کرکے ملازمتوں سے فارغ کیا جائے اصلاحات کی یہ حکومت صوبے کی سب سے مہنگی ترین حکومت ہے جس میں حکومت کے اخراجات کو مفاد عامہ قراردیا جاتا ہے جبکہ غریب ملازمین کی تنخواہ کو صوبے پر بوجھ قراردیا جاتا ہے جو کہ بدقسمتی کا مقام ہے۔