|

وقتِ اشاعت :   November 14 – 2015

اسلام آباد: وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ غیر ملکی قرضے لینا ہماری مجبوری ہے ، اقتدار میں آنے کے بعد 32 اداروں کے سیکرٹ فنڈز بند کردیئے ہیں ملک کو معاشی طورپر مضبوط بنانے کیلئے تمام سیاسی جماعتیں حکومت کا ساتھ دیں بعض دانشور میڈیا پر بیٹھ کر ملک کیخلاف منفی پروپیگنڈہ کرتے ہیں ، ان خیالات کا اظہار انہوں نے ایوان بالا میں سینیٹر شیریں رحمن کی جانب سے غیر ملکی قرضوں میں مزید اضافے سے متعلق تحریک التواء پر بحث کو سمیٹتے ہوئے کیا ۔ اس موقع پر سینیٹر شیری رحمن نے کہا کہ حکومت غیر ملکی قرضوں کا بوجھ بنا رہی ہے اور یہ بوجھ آنے والی حکومت کے سر پر ہوگا ۔ انہوں نے کہاکہ اخبارات نے بھی پاکستان کے غیر ملکی قرضوں میں اضافے سے متعلق خبریں دی ہیں انہوں نے کہا کہ ڈھائی سالوں کے دوران تین کھرب روپے کے قرضے لئے گئے ہیں اور سالانہ ایک کھرب روپے سے زائد مقامی قرضوں کی مد میں دیئے جارہے ہیں انہوں نے کہا کہ حکومت بیرونی ممالک سے مہنگے قرضے لیکر پاکستان میں لئے جانے والے سستے قرضوں کی ادائیگی میں صرف کرتی ہے غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر بڑھنے کا پاکستان کوکوئی خاص فائدہ نہیں پہنچ رہاہے انہوں نے کہا کہ ہر سال چھ ارب ڈالر کا قرضہ لیا جارہا ہے ہماری ستر فیصد جی ڈی پی قرضوں کی ادائیگی میں خرچ ہوجاتی ہے انہوں نے کہا کہ حکومت نے ملک کے ہر شہری کو لاکھوں روپے کا مقروض بنا دیا ہے انہوں نے کہا کہ حکومت ٹیکس نیٹ میں اضافہ میں ناکام ہوچکی ہے مہنگے شرح سود یورو بانڈ بیچے گئے ہیں پرائیویٹ سیکٹر میں سرمایہ کاری مزید کم ہورہی ہے ۔سینیٹر تاج حیدر نے کہا کہ بجٹ خسارے کو ملکی اور غیر ملکی قرضوں کے ذریعے پورا کیا جارہا ہے تیل کی قیمتیں کم ہونے کے باوجود صنعتی کارکردگی متاثر ہورہی ہے کارپوریٹ سیکٹر پر کوئی توجہ نہیں دی جارہی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ملکی زرمبادلہ کے ذخائر قرضوں کے ذریعے بڑھائے جارہے ہیں حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کیا جارہا ہے ۔ سینیٹر شبلی فراز نے کہا کہ حکومت ایوان کو مختلف مسائل میں الجھا کر پریشان کرنے کی کوشش کررہی ہے حکومت قرضے لیکر ملک چلانے پر انحصار کررہی ہے مہنگے قرضے لیکر سستے قرضے ادا کررہی ہے حکومت کے اخراجات بہت زیادہ شاہانہ ہوچکے ہیں ملک میں ٹیکس ادائیگی نہیں ہورہی ہے ۔ سینیٹرنعمان وزیر خٹک نے کہا کہ حکومت نے سب سے زیادہ مہنگے یورو بانڈز لیکر ورلڈ ریکارڈ قائم کیا ہے پاکستان سے غیر قانونی کرنسی سمگل کرنے والوں نے یورو بانڈ میں سرمایہ کاری کی ہے اس وقت پاکستان کے قرضے 67فیصد تک جا چکے ہیں انہوں نے کہا کہ پبلک سیکٹر اٹر پرائزز پر چار سو ارب روپے خرچ کئے جارہے ہیں اور یہ رقم عوام کے خون پسینے کی کمائی ہے انہوں نے کہا کہ جو لوگ ٹیکس ادا کررہے ہیں ان کا ہی گلا دبایا جارہا ہے ٹیکس ریفنڈ گزشتہ تین سالوں سے ادا نہیں کیا گیا ہے سینیٹر سلیم مانڈوی والا نے کہا کہ وزیر خزانہ تنقید برداشت نہیں کرسکتے ہیں اور ناراض ہوجاتے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف پروگرام سے پاکستان نکل نہیں سکے گا قرضہ واپس کرنے کیلئے مزید قرضہ لینا پڑے گا ہم آئی ایم ایف کے ہاتھوں ٹریپ ہوچکے ہیں نجکاری ہمارے قرضے ختم نہیں ہورہے ہیں گزشتہ ڈھائی سالوں سے بیرونی قرضے لیکر اندرونی قرضے ادا کررہے ہیں جو کہ نہایت خطرناک ہے اور اس کے خطرناک نتائج مستقبل میں برآمد ہونگے سینیٹر بیرسٹر سیف نے کہا کہ حکومت قدرتی وسائل سے فائدہ اٹھانے کی بجائے دیگر اطراف میں دیکھ رہی ہے ملک میں قدرتی گیس اور کوئلے کے ذخائر دریافت کرنے اور انہیں برآمد کرنے کی بجائے ایل این جی اور بیرونی اشیاء پر انحصار کررہی ہے ۔ بحث کو سمیٹتے ہوئے وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا کہ ملکی مسائل پر مل بیٹھ کر بات کرنی چاہیے تمام سیاسی جماعتوں کو ملکی معیشت کیلئے مل کر کام کرنا ہوگا ملکی محصولات اور اخراجات میں بہت زیادہ فرق ہے ملک کو چلانے کیلئے بیرونی قرضوں پر انحصار کرنا ہوگا ۔ انہوں نے کہا کہ عالمی مالیاتی اداروں نے پاکستان کو مشکلات میں گھرا ملک قرار دیا ہے جب تک خسارے کو کم نہ کیا جائے اس وقت تک قرضہ بڑھتا رہے گا انہوں نے کہا کہ حکومت سنبھالنے کے بعد بتیس اداروں کے سیکرٹ فنڈ پر پابندی عائد کی قرضوں کو کم کرنے کی کوششیں کررہے ہیں بعض عناصر منفی پاکستان کے بارے میں منفی افواہیں پھیلا رہے ہیں میڈیا میں بھی غلط خبریں چھاپی جارہی ہیں۔ تیس جون2013ء تک کل قرضہ 15996 ارب روپے تھا تیس جون 17 کھرب 31اگست 2015ء تک 18.083 کھرب سے قرضہ ہے ایک سال میں 2600ارب روپے قرضہ بڑھ رہا ہے انہوں نے کہا کہ ضرب عضب پر خرچ ہورہا ہے چار ملکوں کے پاس گئے مگر وعدے سے بہت کم رقم ملی ہے ضرب عضب کا خرچہ 1.9ارب ڈالر سے زیادہ ہے گزشتہ سال بجٹ میں 45 روپے نہیں مگر 45ارب روپے کی لاگت سے ضرب عضب شروع کیا گیا ۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کو آئی ایم ایف کے پاس جانے کا کوئی شوق نہیں ہے ہم ڈکٹیشن لینے کا شوق نہیں ہے ہماری مجبوری ہے انہوں نے کہا کہ عالمی سطح پر بزنس کرنے کیلئے ان اداروں کے ساتھ رابطہ ضروری ہے حکومت سنبھالنے سے پاکستان کی معیشت بہت خراب تھی غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر خطرناک حد تک کم ہونے کی وجہ سے عالمی ادارے پاکستان کے ساتھ کوئی معاہدہ کرنے کیلئے تیار نہیں تھے مگر گزشتہ تین سالوں کے دوران حکومت نے دن رات کام کرکے ملکی معیشت کو سنبھالا دیا ہے انہوں نے تمام سیاسی جماعتوں سے اپیل کی ہے کہ ملک کو ترقی کی راہ پرگامزن کرنے کیلئے حکومت کا ساتھ دیں ۔ دریں اثناء ایوان بالا میں پیش کی گئی این ایف سی رپورٹ پر بحث سمیٹتے ہوئے وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا ہ اب تک ملک میں چار این ایف سی ایوارڈ ہوئے ہیں پہلا ایوارڈ 30 جون 1991 تک چلا ۔ دوسرا این ایف سی 1997 تک ، تیسرا ایوارڈ 2010 تک چلا ۔ این ایف سی ایوارڈ میں آبادی کو 82 فیصد حصہ جبکہ ریونیو جمع کرنے کو پانچ فیصد دیا گیا ۔ انہوں نے کہا کہ این ایف سی ایوارڈ میں پنجاب نے اپنے حصہ سے دوسرے صوبوں کو شیئر دیا ۔ موجودہ این ایف سی ایوارڈ سے پنجاب کا 52 فیصد سندھ ، 24.55 خیبرپختونخوا ، 14.62 اور بلوچستان کا 9.9 فیصد ہے آئین کے تحت گلگت بلتستان اور آزاد جموں و کشمیر این ایف سی ایوارڈ میں شامل نہیں ہے اس وقت 57 فیصد صوبوں کو 43 فیصد وفاقی حکومت کے پاس ہے جس میں سے وفاقی حکومت گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کو بھی حصہ دیتے ہیں ۔ صوبوں سے نام لے کر 24 اپریل 2015 کو میٹنگ بلوائی۔ ہم نے گنڈہ ٹیکس کو ختم کیا اس کے علاوہ صوبوں اور وفاق کے حصہ سے ایک فیصد خیبرپختونخوا کو دیا کیونکہ وہاں پر دہشت گردی کی وجہ سے حالات کافی خراب تھے ۔ انہوں نے کہاکہ پنجاب کا ممبر نہ ہونے کی وجہ سے این ایف سی ایوارڈ کی میٹنگ نہیں بلوائی جا سکی ۔ حکومت نے ممبر منتخب کرنے کے لئے چار خط لکھے ہیں ہمیں اعتراف کرنا چاہئے کہ این ایف سی ایوارڈ کے تحت مقرر کئے گئے ٹیکس جی ڈی پی حاصل کرنے میں ناکام ہوئے ہیں ۔ خیبرپختونخوا کو دو سال میں دہشت گردی کی مد میں 26 فیصد جا چکا ہے ۔ گیس ڈویلپمنٹ سرچارج کی مد میں پنجاب کو 10.933 ارب سندھ کو 10.67 ارب ، کے پی کے کو 2.04 اور اب جبکہ بلوچستان کو 2.23 ارب دیا گیا ہے ۔ فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کی مد میں پنجاب کو 0.213 ارب کو حصہ دیا گیا ہے ایوارڈ کو جلد از جلد انعقاد کروانا چاہتے ہیں ہم نے ٹیکس جمع کرنے کے متعلق ہر چیز شیئر کر دی ہے ۔ وفاقی وزیر خزانہ نے کہا کہ ماضی میں 13 سال اور 16 سال میں ایوارڈ دیتے رہے ہیں تو اس ایوارڈ میں ابھی چند ماہ ہوئے ہم نے بے انکم سپورٹ پروگرام سے خاطر خواہ اضافہ کیا ہے ۔ 12 ہزار سے 18 ہزار کیا ہے معیشت کو سیاست سے الگ کیا جائے معیشت کی بحالی کے تمام جماعتوں کے اراکین سے بات کرتا رہتا ہوں دریں اثناء وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ اس سے قبل ملک میں این ایف سی ایوارڈ 16سال تک چلے، کچھ مہینے اوپر ہوئے تو آوازیں آنا شروع ہو گئی ہیں، مجھے کوئی دیکھائے آئین میں کہاں لکھا ہے کہ این ایف سی ایوارڈ5سال بعد ہوتا ہے، ایوارڈ کو طول دینے پر کام ہو رہا ہے اور یہ آئین کی خلاف ورزی ہرگز نہیں، این ایف سی میں 57.50 فیصد حصہ صوبوں کااور وفاق کا 42.5فیصد ہے، وفاق ے زیر انتظام علاقوں میں اسی حصے سے کام ہوتے ہیں، ہم نے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے پیسے 35 ارب سے بڑھا کر 95ارب کئے، غرباء کی رقم 12سے 18ہزار کر دی ۔ وہ جمعہ کو این ایف سی عملدرآمد رپورٹ پر ایوان بالا میں بحث سمیٹ رہے تھے۔ وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا کہ میں اس لئے جمعرات کو حاضر نہیں ہو سکا کہ میں 12 بجے پاکستان پہنچ گیا تھا مگر تاجک صدر کی آمد اور وزارت خزانہ کے اہم معاملات ان کے ساتھ طے ہونے تھے، اس لئے میں معذرت چاہتا ہوں، اینایف سی ایوارڈ ایک انتہائی اہم معاملہ ہے اور اٹھارہویں ترمیم کی وجہ سے ہمیں آسانیاں ہوئیں، اس ملک میں ابھی تک چار این ایف سی ایوارڈ ہوئے اور اس ایوارڈ کو آبادی کے لحاظ سے دیاگیااور پنجاب نے اس میں نقصان بھی اٹھایا،تین فیصد مکس گروتھ تھی اور اب 16فیصد ٹیکس گروتھ ہے، پنجاب نے بہت بڑی قربانی دی، پنجاب 52،سندھ 24.55،بلوچستان 9.9، خیبرپختونخوا 14.62کا حصہ بنایا گیا اور گلگت بلتستان کے آزاد جموں و کشمیر اور فاٹا این ایف سی کا حصہ نہیں، یہ علاقے وفاق کے ماتحت ہیں اور وفاق ان علاقوں کو گرانٹ فراہم کرتا ہے، ہم نے پچھلی حکومت میں اپوزیشن میں ہوتے ہوئے ہم نے این ایف سی کی کوشش کی۔ اینایف سی میں صوبوں کا حصہ 57.50فیصد اور وفاق کا 42.50 ہے جو جی بی، فاٹا اور اے جے کے پر بھی خرچ ہوتا ہے، ہماری حکومت نے ضلع ٹیکس کے نام پر غنڈہ ٹیکس کو ختم کیا، صوبوں اور وفاق کے حصوں سے ایک فیصد نکال کر خیبرپختونخوا کو دیاگیا کیونکہ وہ دہشت گردی سے متاثر تھا، این ایف سی کو ہر پانچ سال کے بعد دوبارہ بنتا ہے مگر صوبوں سے ممبر مانگے جاتے ہیں مگر وہ جواب ہی نہیں دیتے، پنجاب کاممبر نہ ہونے کی وجہ سے کمیشنکا اجلاس نہیں ہا، ہم فیل ہو چکے ہیں، 15فیصد ٹیکس قومی خزانے میں جمع کرانے کیلئے دو سال میں خیبرپختونخوا کو 26فیصد جا چکا ہے اور اب تک تمام صوبوں کو 64فیصد حصہ پہنچ چکا ہے، میں نے ایک سسٹم رکھا ہے جو ہر دو ماہ بعد صوبوں کو پیسے جاتے ہیں، قدرتی گیس کی ریئلٹی کی مد میں 0.61 بلین، سندھ کو 12.09، کے پی کے 1.82بلین، بلوچستان کو 5.02بلین گیس ڈویلپمنٹ سرچارج کی مد میں پنجاب کو 0.933 بلین، سندھ کو 10.67بلین، خیبرپختونخوا 2.04 بلین اور بلوچستان کو 2.23بلین دیئے گئے، ایکسائز ڈیوٹی کی مد میں پنجاب 0.213بلین سندھ کو 3.93بلین، خیبرپختونخوا کو 0.654بلین ،بلوچستان کو 0.73بلین دیا گیا، 18ویں ترمیم کے بعد بہت سے محکمے صوبوں کو چلے گئے، یہ میری خواہش ہے کہ جلد از جلد این ایف سی ایوارڈ کو یقینی بنایا جائے، ہم نے بی آئی ایس پی کے بجٹ کو 35ارب سے بڑھا کر 95ارب کر دیا اور 12ہزار معاوضہ سے 18ہزار کر دیا، ہم نے تو کام کیا ہے، اب ہم کو سیاست سے بالاتر ہو کر معیشت کو بہتر بنانا ہو گا، میں ہمیشہ اپوزیشن رہنماؤں سے رابطے کریں،وزارت خزانہ ایک ہاتھی موجود ہے اب ہمیں 6مہینوں کیلئے نیا ہاتھی بنانے کی کیا ضرورت ہے۔