|

وقتِ اشاعت :   November 17 – 2015

انقرہ:  امریکی صدر براک اوباما کا کہنا ہے کہ داعش کے خلاف فضائی حملوں میں شدت لائیں گے اور داعش کے رہنماؤں کو چھپنے کی جگہ نہیں ملے گی۔ ترکی میں جاری جی 20 کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے امریکی صدر براک اوباما نے کہا کہ داعش کے خلاف فضائی حملوں میں شدت لائیں گے اور داعش کے رہنماؤں کو چھپنے کی جگہ نہیں ملے گی جب کہ داعش کی سپلائی اور فنڈنگ کو روکنے کے لیے عالمی بھی سطح پر رابطے بڑھا رہے ہیں، داعش کے خلاف شامی اور عراقی فورسز کو مضبوط بنایا جائے گا۔ اوباما کا کہنا تھا کہ شام میں سفارتی محاذ پر پیشرفت ہو رہی ہے، ہمارا مقصد دہشت گردی کو تباہ کرنا ہے لہٰذا شام کے مہاجرین پر دروازے بند کرنا غلط ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ فرانس کے ساتھ داعش کے معاملے پر انٹیلی جنس تعاون میں تیزی لا رہے ہیں کیونکہ پیرس حملوں کے وقت امریکا کے پاس کوئی انٹیلی جنس معلومات نہیں تھیں۔امریکہ صدر نے کہا کہ مسلم رہنماؤں کو بتانا ہوگا کہ دہشتگردی کیسے جڑ پکڑ رہی ہے دریں اثناء پیرس حملوں نے دو بڑے حریفوں کوایک میز پر بٹھا کر سر جوڑنے پر مجبورکردیا،داعش کے خاتمے اور شام کے مسئلے کے حل کیلئے امریکی صدر بارک اوباما نے ترکی میں جی 20 اجلاس کے موقع پر روسی صدر ولادی میر پیوٹن سے ملاقات کی ۔غیر ملکی میڈیاکے مطابق وائٹ ہاؤس کی جانب سے جاری بیان میں بتایا گیا ہے کہ ملاقات 35 منٹ تک جاری رہی جس میں شام میں جاری خانہ جنگی پر تبادلہ خیال کیا گیا اور دونوں رہنماں نے شام کے بحران کے سیاسی حل پر زور دیا۔ ملاقات میں بحران کے حل کیلئے پیش کردہ نئی تجاویز پر بھی غور کیا گیا اور امریکی صدر نے امید ظاہر کی کہ روس بشارالاسد کے مخالفین کے بجائے داعش کے خلاف فضائی حملے کرے گا۔ ترجمان وائٹ ہاس کے مطابق صدر اوباما نے یوکرائن سے فوجی انخلا پر بھی زور دیا۔ روس کی جانب سے شام میں فضائی حملے شروع کئے جانے کے بعد اوباما اور پیوٹن میں یہ پہلی ملاقات ہے۔علاوہ ازیں فرانسیسی صدر فرانسوا اولاند نے پارلیمان کے دونوں ایوانوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ جمعے کو ہونے والے حملوں کے بعد فرانس خود کو دولت اسلامیہ کہنے والی شدت پسند تنظیم کو تباہ کرنے کے لیے پر عزم ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ ملک میں پیرس حملوں کے بعد لگائی جانے والی ایمرجنسی کو تین ماہ کے لیے بڑھانے کے لیے بل پیش کریں گے۔ فرانسوا اولاند نے مزید کہا کہ عراق اور شام میں دولت اسلامیہ کے خلاف جاری فرانس کی فوجی کارروائیوں میں بھی مزید شدت لائی جائے گی۔ فرانسیسی صدر نے کہا کہ وہ آئندہ چند دنوں میں امریکی صدر باراک اوباما اور روسی صدر ولادی میر پوتن کے ساتھ دولت اسلامیہ کے خلاف آئندہ کے اقدامات کے حوالے سے ملاقاتیں کریں گے۔ اس سے قبل فرانس میں حکام کا کہنا تھا کہ فرانس کے مختلف علاقوں میں مشتبہ اسلامی شدت پسند جنگجوؤں کے خلاف سلسلہ وار چھاپوں کے دوران 23 افراد کوگرفتار کیا گیا ہے جبکہ درجنوں ہتھیار بھی قبضے میں لییگئے ہیں۔ ان چھاپوں کا سلسلہ پیرس میں ریستوران، شراب خانوں، کنسرٹ ہال اور ایک سٹیڈیم پر ہونے والے مختلف حملوں کے بعد شروع کیا گیا ہے۔ جمعے کو ہونے والے ان حملوں کے نتیجے میں 129 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ بیلجیئم پولیس کا کہنا ہے سنیچر کو گرفتار کیے جانے والے سات افراد میں سے دو پر پیرس حملوں میں ملوث ہونے کے باعث فردِ جرم عائد کی گئی ہے۔جبکہ باقی پانچ افراد کو رہا کر دیا گیا ہے جن میں دو مشتبہ افراد ابراہیم عبدالسلام جو حملوں کے دوران ہلاک ہوئے اور عبدالسلام صالح جو مفرور ہیں کے بھائی بھی شامل ہیں۔ پولیس کے مطابق:’دو افراد پر دہشت گردی کے اقدام اور پر تشدد سرگرمیوں میں ملوث ہونے کی وجہ سے فرد جرم عائد کی گئی ہے۔‘ اس کے علاوہ بیلجیئم کے شہر برسلز میں بھی پولیس آپریشن جاری ہے۔ شہر کے ایک علاقے میں گولیاں چلنے اور دھماکوں کی آوازیں سنی گئی ہیں۔ اس سے قبل فرانس نے اعلان کیا تھا کہ پیرس میں حملے میں سے دو خودکش حملہ آوروں احمد المحمد اور سامی عمیمور کو شناخت کر لیا گیا ہے۔ المحمد نے فرانس سٹیڈیئم میں خود کو دھماکے سے اڑا لیا تھا۔ استغاثہ کا کہنا ہے کہ اگر ان کی لاش کے نزدیک پایا جانے والا پاسپورٹ اصلی ہے تو اس صورت میں وہ دس ستمبر 1990 کو شام کے شہر ادلب میں پیدا ہوئے تھے۔ دوسری جانب فرانس کے وزیر اعظم مینوئل والس نے کہا ہے کہ فرانسیسی حکام کے علم میں ہے کہ مزید دہشت گردی کے حملوں کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے اور پیرس حملوں کی منصوبہ بندی شام میں کی گئی تھی۔ عمیمور ان خودکش حملہ آوروں میں شامل ہیں جنھوں نے بٹاکلان پر حملہ کیا تھا۔ وہ 15 اکتوبر 1987 کو پیرس میں پیدا ہوئے تھے۔ پراسیکیوٹر کے دفتر سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا ہے کہ بٹاکلان پر خودکش حملہ آوروں میں شامل سامی عمیمور کے بارے میں فرانس کی انٹیلی جنس ایجنسیاں جانتی تھیں۔ ان اطلاعات کے بعد کہ وہ یمن جانے کی منصوبہ بندی کر رہے تھے، انھیں اکتوبر 2012 میں باقاعدہ طور پر زیر تفتیش رکھا گیا تھا۔ انھیں عدالتی نگرانی کے تحت رکھا گیا تھا اور 2013 میں ضمانت کی خلاف ورزی کرنے کے بعد ان کی گرفتاری کے بین الاقوامی وارنٹ جاری کر دیے گئے تھے۔ پیر کی صبح عمیمور کے تین رشتے داروں کو زیر حراست لے لیا گیا۔ اس سے قبل فرانسیسی پولیس نے پیرس میں ہونے والے حملوں کے سلسلے میں مطلوب ایک شخص کی تصویر جاری کرتے ہوئے اس کے بارے میں معلومات کے لیے عوام سے تعاون کی اپیل کی تھی۔ پولیس کی جانب سے بتایا گیا ہے کہ مذکورہ شخص بیلجیئم میں پیدا ہونے والا 26 سالہ صالح عبدالسلام ہیں۔ پولیس کا کہنا ہے کہ عبدالسلام کے بارے میں خیال ہے کہ وہ حملوں میں براہِ راست ملوث تھے اور اب وہ مفرور ہیں۔ اطلاعات کے مطابق فرانسیسی پولیس نے حملوں کے کچھ گھنٹوں بعد ہی بیلجیئم کی جانب سفر کرنے والی اس کار کو روکا تھا جس پر عبدالسلام بھی سوار تھے۔ پولیس افسران نے اس سے سوالات کیے اور شناختی دستاویزات دیکھ کر انھیں سفر جاری رکھنے کی اجازت دے دی گئی تھی۔ اب اس کی تلاش میں مختلف مقامات پر چھاپے مارے جا رہے ہیں اور پولیس نے عبدالسلام کو خطرناک قرار دیتے ہوئے عوام سے کہا ہے کہ وہ اس کے بارے میں کوئی بھی اطلاع فوری طور پر حکام کو دیں۔ عبدالسلام کے دو بھائیوں میں سے ایک بٹاکلان تھیٹر میں مارا گیا جبکہ ان کا تیسرا بھائی بیلجیئم میں پکڑا گیا ہے۔ دوسری جانب فرانس کے وزیر اعظم مینوئل والس نے کہا ہے کہ فرانسیسی حکام کے علم میں ہے کہ مزید دہشت گردی کے حملوں کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے اور پیرس حملوں کی منصوبہ بندی شام میں کی گئی۔ انھوں نے کہا کہ ’ہمیں علم ہے کہ نہ صرف فرانس بلکہ دیگر یورپی ملکوں میں بھی مزید کارروائیاں کرنے کی تیاریاں کی جا رہی ہیں۔‘ دریں اثنا فرانسیسی پولیس نے گزشتہ رات ملک بھر میں مشتبہ شدت پسندوں کے گھروں پر چھاپے مارے ہیں۔ فرانسیسی وزیر اعظم نے کہا ہے کہ فرانس کے خفیہ اداروں نے اس سال موسم گرما میں کئی حملوں کو ناکام بنایا ہے اور پولیس کے علم میں ہے کہ فرانس اور دیگر یورپی ملکوں میں اس طرح کی مزید کارروائیاں کرنے کی تیاریاں اور منصوبہ بندی کی جا رہی ہے۔ انھوں نے کہا کہ حکومت ایمرجنسی قوانین کے تحت اسلامی انتہا پسندوں اور ان سب سے جو نفرت پھیلانے میں مصروف ہیں، تفتیش کر رہی ہے۔ فرانس کے وزیر اعظم نے آج صبح فرانسیسی ریڈیو سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’ہمیں بھرپور طریقے سے جینا ہو گا، زندہ رہنا ہو گا، لیکن اس طرح کے شدت پسند حملوں کے بعد فرانس کی عوام کو متحد رہنا ہو گا۔‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ ’دولت اسلامیہ ہمارے خلاف یہ جنگ نہیں جیت سکتی، لیکن یہ شدت پسند تنظیم ہمیں کمزور کرنے اور تقسیم کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔