|

وقتِ اشاعت :   August 16 – 2022

ملکی سیاست کے ہوشربا اور پر کیف دھنیں سن سن کر کان پک گئے ہیں یہ ٹکنالوجی کا دور ہے اونٹ اور خچر کا زمانہ گزر چکا ،آج دنیا کے ایک سرے پر جو واقعہ رونما ہوتی ہے لمحوں میں پوری دنیا میں پھیل جاتی ہے لیکن یہ سب کچھ ہونے کے باوجود ہمارے سیاستدان اب بھی وہی راگ الاپ رہے ہیں جو نصف صدی پہلے پاکستانی عوام سنتے آرہے ہیں ایسے دلفریب نعرے لگانے والوں میں صوبہ بلوچستان کے لیڈر کسی سے پیچھے نہیں ہیں ۔بلوچستان میں دو انواع کے لیڈر پائے جاتے ہیں ایک طبقہ سرداراور نواب اور دوسرا خود کو قوم پرست کہتا ہے یہ دونوں طبقے قوم دوست نہیں ہیں نوابوں اور سرداروں کے علاقوں میں کہیں ڈھنگ کا کوئی اسکول یا اسپتال نظر نہیں آتا۔ ایسے کئی سردا راور نواب ہیں جو تین پشتوں سے اقتدار کے گھوڑے من کے مطابق دوڑاتے رہے لیکن ان کے علاقوں میں کوئی ڈسپنسری بھی نظر نہیں آتی۔یہ دونوں طبقے یعنی سردار نواب اور قوم پرست ہمیشہ مقتدرہ پر میزائلیں برساتے تو ہیں لیکن اصل میں دونوں مقتدرہ کے برخوردار ہیں ان دونوں طبقوں کو عوام سے کوئی دلچسپی نہیں شعور ان کا بڑا دشمن ہے ان کو فکر دامن گیرہے کہ شعور آگیا تو یہ سلسلہ نہیں چلے گا،اس لیے ہمیشہ الیکشن کے قریب آتے ہی عوامی مسیحا بننے کی کوشش کرتے ہیں لیکن سنجیدہ فکر رکھنے والوں کی طرف سے انہیں دھیرے سے ہی صحیح لیکن سر گوشیوں میں سنائی ضرور دیتا ہے
رفاقتوں کے نئے خواب خوشنما ہیں مگر
گزر چکا ہے ترے اعتبار کا موسم
صوبے کی تاریخ میں صرف ایک ہی بار بلوچستان کے عوام کو ڈاکٹر مالک بلوچ کی شکل میں مسیحا مل گیا تھا مگر آدھے راستے میں انہیں پسپا کر دیا گیا کیونکہ ڈاکٹر مالک شعور کے دئیے کو جلانے نکلا تھا مالک بلوچ کی کوشش اور شدید خواہش تھی کہ اندھیری رات کو عقل اور شعور کی طاقت سے منور کردوں اور یہ کوشش مالک بلوچ انیس سو اٹھاسی سے کرتے آرہے ہیں گوکہ ان کے سامنے مضبوط رکاوٹیں ہیں لیکن یہ آگے بڑھتے رہے ۔جب دوہزار تیرہ میں ڈاکٹر مالک اپنے سفرکاآدھا حصہ خوبصورت انداز میں مکمل کرچکے تھے تو بیچ راستے میں ان کوآگے جانے سے روک دیا گیا لیکن مالک بلوچ نے جو کچھ کیا ہے وہ روز روشن کی طرح عیاں ہے اور تاریخ میں جو شہرت اور مقام چرچا جمال ناصر اور بن گوریان نے سمیٹامالک بلوچ کا قد ان سے کم نہیں۔مالک بلوچ تو بلوچوں کا بن گوریان ہی توہے