|

وقتِ اشاعت :   November 19 – 2015

کوئٹہ : بی ایس او آزاد کی چیئرپرسن بانک کریمہ بلوچ نے براہمدگ بگٹی کی حالیہ بیانات اور ریاست سے مذاکرات اور آزادی کے موقف سے دستبرداری پر آمادگی پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ براہمدغ بگٹی قومی آزادی کے موقف سے پیچھے ہٹ کر بلوچ قوم سے دھوکہ کرنے کا مرتکب ہو رہے ہیں انہوں نے کہا براہمدگ بگٹی کی ڈاکٹر مالک سے ملاقات کے بعد قومی اتحاد کے لئے عجلت میں دعوت دینا اور اس سے پہلے اتحاد کی کوششوں میں سنجیدہ نہ ہوناسیاسی نا بلدی ہے ۔ ایک مہینے کے اندر اتحاد تشکیل نہ پانے کو براہمدغ بگٹی بطور جواز پیش کرکے مذاکرات کیلئے راہ ہموار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ، انہوں نے کہا کہ براہمدغ بگٹی جدوجہد کی سختیوں سے بظاہر گھبرا کر آزادی کے حصول کو مشکل سمجھ رہے ہیں براہمدغ بگٹی سمیت کوئی بھی جہد کار اس آفاقی حقیقت ” کہ قومی آزادی عظیم قربانیوں اور جہد مسلسل کے بعد ہی حاصل کی جا سکتی ہے”کو تسلیم کیے بغیر مایوسی کاشکار ہو کر جدوجہد سے دستبردار ہوجاتے ہیں مگر اب یہ جدوجہد کسی کی دستبرداری یا مایوس ہوجانے سے ختم نہیں ہوتی۔ بانک کریمہ بلوچ نے کہا کہ براہمدغ بگٹی ریاست کو صرف اس بنیاد پر مذاکرات کی دعوت دے رہے ہیں کہ وہ طاقت ور ہیں اور ہم محکوم و کمزورتر، لیکن بلوچ عوام کی محکومی اورکمزوری سے کسی طاقت ور کو یہ حق دینا کہ وہ بلوچ عوام کی زندگی کا فیصلہ کرے تاریخ سے ناواقفیت ہے ۔انہوں نے کہا کہ اس حقیقت سے براہمدغ بگٹی کیسے منہ موڑ سکتے ہیں کہ ایک ریاست ہمیشہ ایک ایسے ریاست پر قبضہ کرتی ہے جو عسکری حوالے سے اس سے کمزور تر ہو ، اور دنیا کی تاریخ میں ہمیشہ سے ہی اسی طرح کے قبضے ہوئے ہیں بلوچ قومی سوال دنیا کا پہلا اور آخری بھی نہیں کیونکہ جب سے دنیا کا وجود ہے حاکم اور محکوم ظالم اور مظلوم کی جنگ بھی ایک اٹل حقیقت ہیں، اور بلوچستان پر قبضہ کے خلاف بلوچ لڑ رہے ہیں وہ بحیثیتِ محکوم قوم عسکری و مالی حوالے سے ایک ریاست کی نسبت کمزور ہے مگر دنیا میں کمزور سے کمزور ترین قوموں نے اپنی فکر و نظریہ پر کاربند رہتے ہوئے بڑے سے بڑے سپرپاورزکو بھی شکست سے دوچار کرکے اپنی قومی حقوق کے حصول کو ممکن بنایا ۔ بلوچ عوام بھی اپنی قومی نظریے و فکر پر یقین رکھتے ہوئے ہزاروں تکالیف سہتے ہوئے آج قومی تحریک میں اپنا کردار ادا کررہی ہے۔انہوں نے کہا کہ بلوچ قومی تحریک کے خلاف روز بہ روز شدت اختیار کررہی ہے اور بلوچ قومی جدوجہد کو کاؤنٹر کرنے کیلئے ادارے مختلف حربے آزمارہے ہیں ،بلوچ شہدا جو اپنی سرزمین کی آزادی کی خاطر شہید ہوچکے ہیں،یا وہ مائیں جو اپنے بچے اس سرزمین کیلئے قربان کرکے فخر محسوس کرتی ہیں مذاکرات پر آمادگی ظاہر کرنے والے عناصر ان ماؤں کو کیا جواب دیں گے ۔بی ایس او آزاد کی چیئرپرسن نے کہا کہ براہمدگ بگٹی نے اپنے بیان میں بی ایس او آزاد پر جس بد نیتی سے الزام تراشی کرکے حقائق کو چھپانے کی کوشش کی ان سے حقیقت کو بدلا نہیں جاسکتا کیونکہ وہ خود معترف ہیں کہ بی ایس او آزاد نے اس وقت اخبارات میں چھپنے والے بیان کی وضاحت کی تھی اس کے باوجود ایک افواہ کو جواز بنا کربراہمدغ بگٹی کی بی این ایف سے علیحدگی پر اتحاد کے حوالے سے انکی سنجیدگی کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے انہوں نے مزید کہا کہ قومی آزادی کے لئے جدوجہد کرنے والی پارٹیوں کو بلوچ عوام احترام کی نگاہ سے دیکھتی ہے اگر کوئی پارٹی قومی آزادی کے موقف سے دستبردار ہو جاتی ہے تو بلوچ معاشرے میں اسے اورنیشنل پارٹی کو ایک ہی نگاہ سے دیکھ کر ان کا احتساب کرے گی ۔ انہوں نے کہا کہ براہمدغ بگٹی شاید قومی اتحاد کے حوالے واقفیت نہیں رکھتے ہوں کیونکہ قومی اتحاد کے کچھ انقلابی معیار و اصول ہوتے ہیں بی ایس او آزاد انہی اصولوں و طریقہ کارپر نہ صرف خود یقین رکھتی ہے بلکہ کسی کو بھی اجازت نہیں دیتی کہ وہ اتحاد کے حوالے انقلابی معیارات کی نفی کرے ۔بی ایس او آزاد کے چیئرپرسن کریمہ بلوچ نے بولان کے مختلف علاقوں لَکڑِ،گوزو،پلکڑی،سنجاول ،سھرکمب،میں گزشتہ دنوں سے جاری آپریشن ودوران آپریشن 50سے زائد بلوچ فرزندان جس میں درجن سے زیادہ بلوچ خواتین کی اغواء و80سالہ بزرگ ماں بی بی ساہتو کی شہادت کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا کہ جنگی قوانین کو پاؤں تلے روند کر بلوچ نسل کشی میں شدت لارہے ہیں۔ بلوچ آزادی پسند جہد کاروں کو آزادی کے فکر سے دور رکھنے کیلئے اس طرح کی کاروائیوں میں شدت لایا جاہے، مگر اس طرح کی کاروائیوں سے بلوچ تحریک آزاد ی سے فکری وابستگی کو ختم نہیں کیا جاسکتا ۔بانک کریمہ بلوچ نے کہا کہ بلوچ مذاحمت کاروں پر کاروائیوں کے نام پر فورسز عام بلوچ آبادیوں کو نشانہ بنا رہی ہے آبادیوں پر بمبارمنٹ کے ساتھ ساتھ فصلوں کو جلا نے، مال مویشیوں کو لوٹنے اور بلوچ ماں بہنوں اورمعصوم بچوں کو اغواء کیا جا رہا ہے ۔ بانک کریمہ بلوچ نے کہا کہ بلوچستان میں فورسز کے ہاتھوں جنگی قوانین کی سنگین خلاف ورزیوں کے باوجود اقوام متحدہ سمیت انسانی حقوق کی عالمی اداروں کی خاموشی انکی معتبر حیثیت پر سوالیہ نشان ہے۔