کوئٹہ : وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے کہا ہے کہ بلوچستان کامسئلہ سیاسی ہے ، طاقت مسائل کا حل نہیں، صوبے میں بیرونی مداخلت موجودہے، مزاحمت کے خاتمہ کے لیے احساس محرومی کا خاتمہ ضروری ہے، مزاحمت کاروں کو مذاکرات کی ٹیبل پر لانے کی کوششیں جاری ہیں، ہمارے خطے کے تنازعات کی زد میں ہونے کی وجہ سے یہاں پر کنفلیکٹ اکانومی ہے، ان خیالات کا اظہار انہوں نے نیشنل سیکورٹی اینڈ وارکورس کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ وزیراعلیٰ نے اس موقع پر شرکاء کی جانب سے پوچھے گئے سوالات کے تفصیلی جوابات دئیے۔ کورس میں23دوست ممالک کے 38سینئر فوجی افسران بھی شریک ہیں۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ ہمارا خطہ شدید تنازعات کی زد میں ہے اور یہاں کنفلیکٹ اکانومی بھی ہے اور صوبے میں بیرونی مداخلت موجود ہے، انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں احساس محرومی کے خاتمہ کے لیے اقدامات کرنے ہونگے اور یہاں کے وسائل پر یہاں کے عوام کو اختیارات دینے کے علاوہ مزاحمت کاری کی وجوہات کا خاتمہ کرنا ہوگا، انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت اور آل پارٹیز کانفرنس نے انہیں بلوچ رہنماؤں کے ساتھ مذاکرات کا اختیار دے دیا ہے اور اس سلسلے میں مناسب پیش رفت بھی ہوئی ہے، ہماری بھرپور کوشش ہے کہ مزاحمت کاروں کو مذاکرات کی ٹیبل پر لا کر اس مسئلے کو سیاسی انداز میں حل کیا جائے۔انہوں نے کہا کہ ہم سیاسی لوگ ہیں اور طاقت کے استعمال پر یقین نہیں رکھتے ، ہم بلوچ عوام کی نفسیات اور نبض کو سمجھتے ہیں اور اسی حکمت عملی کے تحت مسئلہ کو حل کر رہے ہیں، وفاقی اور صوبائی حکومت نے “پرامن بلوچستان پالیسی” کا اعلان کر رکھا ہے ، انہوں نے کہا کہ 18ویں ترمیم ملک میں ایک بڑی پیش رفت اور صوبوں کو اختیارات کی منتقلی کا اہم واقعہ ہے، میری کوشش ہے کہ اسلام آباد سے لیے گئے اختیارات کو کوئٹہ میں رکھنے کی بجائے نچلی سطح پر منتقل کیا جائے ، این ایف سی ایوارڈ سے ہمیں مزید وسائل کی ضرورت ہے اور اس کے لیے ہم جمہوری جدوجہد کر رہے ہیں، وزیراعلیٰ نے کہا کہ جمہوریت کے استحکام سے ہی عوام کا اس نظام پر اعتماد میں اضافہ ہوگا، انہوں نے کہا کہ حکومت نے امن و امان کی بحالی کے لیے ٹھوس اقدامات اٹھائے ہیں اور گذشتہ دو سال قبل کی نسبت آج امن و امان کی مجموعی صورتحال میں 70فیصد بہتری آئی ہے، فرقہ وارانہ تشدد، خودکش دھماکوں، اغواء برائے تاوان، ڈکیتی ، راہزنی اور دہشت گردی کے واقعات میں نمایاں کمی آئی ہے، انہوں نے کہا کہ دو سال قبل پولیس کا محکمہ نزاع کے عالم میں تھا ، موجودہ حکومت نے پولیس کو تمام ضروری وسائل فراہم کرنے کے علاوہ محکمہ سے سیاسی مداخلت اور سفارش کو مکمل طور پر ختم کر دیا ، پولیس اور لیویز کی تنخواہوں میں خاطر خواہ اضافہ کیا گیا، جس سے صوبائی خزانے پر 10ارب روپے کا اضافی بوجھ پڑا، پولیس اور لیویز کے جوانوں کو آرمی اور ایف سی سے ٹریننگ کروائی جارہی ہے، مخلوط صوبائی حکومت نے امن و امان کے قیام کے بعد تعلیم کے شعبے پر خصوصی توجہ دے رکھی ہے، تعلیم کے بجٹ کو 4فیصد سے بڑھا کر 24فیصد کیا گیا ہے، صوبے میں تین نئے میڈیکل کالج اور چھ یونیورسٹیاں قائم کی جا رہی ہیں، پہلی مرتبہ 5ہزار سے زائد اساتذہ کو NTS کے ذریعے میرٹ پر بھرتی کیا گیا ہے، صوبائی حکومت تمام ضلعی ہیڈ کوارٹرز میں یونیورسٹیاں قائم کرنے کا ارادہ رکھتی ہے، بلوچستان پبلک سروس کمیشن کا ذکر کرتے ہوئے وزیراعلیٰ نے کہا کہ اس میں بہتری سے تعلیم یافتہ بیروزگار نوجوانوں کے اعتماد میں اضافہ ہوا ہے۔ صحت کے شعبے میں بہتری کے لیے حکومت صوبائی دارلحکومت کے تمام اور ڈویژنل اور ضلعی ہیڈ کوارٹرز کے سرکاری ہسپتالوں میں علاج و معالجے کی بہتر سہولیات کی فراہمی اور پیدائش کے وقت زچہ و بچہ کی اموات کی شرح کو کم کرنے کے لیے بھی خصوصی اقدامات اٹھا رہی ہے، انہوں نے کہا کہ صوبے کی معیشت کی بنیاد زراعت، لائیو اسٹاک اور ماہی گیری پر منحصر ہے، صوبے کے دو اضلاع کے علاوہ باقی صوبے کی زراعت کا انحصار زیر زمین پانی پر ہے، لیکن گذشتہ دو دہائیوں سے زیرزمین پانی کے ذخائر میں خطرناک حد تک کمی واقع ہوئی ہے، صوبائی حکومت وفاق کے تعاون سے صوبے میں بڑے، درمیانے اور چھوٹے ڈیمز تعمیر کرنے کا منصوبہ رکھتی ہے، اس کے علاوہ وفاق سے پانی کے مزید ذخائر کی تعمیر کے لیے بھی درخواست کی گئی ہے، وزیراعلیٰ نے ریکوڈک کیس سے متعلق بھی شرکاء کو تفصیل سے آگاہ کیا، انہوں نے کہا کہ معدنیات کے شعبے میں بہتری کے لیے حکومت نے مائنز اینڈ منرلز ڈویلپمنٹ اتھارٹی قائم کر دی ہے، تاکہ ماضی کی طرح اس شعبے میں بد انتظامی اور بدعنوانی نہ ہو، جبکہ صوبے میں ٹیکسیشن کے نظام کی بہتری کے ذریعہ صوبے کے وسائل میں اضافے کی جانب خصوصی توجہ دیتے ہوئے بلوچستان ریونیو اتھارٹی کا قیام عمل میں لایا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت سرمایہ داروں کی بھرپور حوصلہ افزائی کر رہی ہے پاک چائنا اقتصادی راہداری کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مذکورہ منصوبے سے نہ صرف ملک ، بلوچستان بلکہ پورے خطے پر مثبت معاشی اثرات مرتب ہونگے، انہوں نے کہا کہ حکومت نے کوئٹہ اور گوادر کو سیف سٹی بنانے کا موثر منصوبہ بنا چکی ہے، انہوں نے کہا کہ پہلی مرتبہ وفاقی حکومت نے بلوچستان کے لیے جتنے فنڈز مختص کر رکھے تھے ان کا سو فیصدی اجراء ہوا ، ماضی میں صورتحال اس سے بالکل مختلف تھی۔اس موقع پر صوبائی وزراء عبدالرحیم زیارتوال، میر سرفراز بگٹی، نواب محمد خان شاہوانی، ڈاکٹر حامد خان اچکزئی، ایڈیشنل چیف سیکریٹری منصوبہ بندی و ترقیات نصیب اللہ خان بازئی، سیکریٹری داخلہ اکبر حسین درانی، وزیراعلیٰ کے پرنسپل سیکریٹری محمد نسیم لہڑی ، سیکریٹری خزانہ مشتاق احمد رئیسانی اور آئی جی پولیس احسن محبوب بھی موجود تھے۔وارکورس کے کوآرڈینیٹر نے صوبے کے حوالے سے تفصیلی بریفنگ دینے پر وزیراعلیٰ کا شکریہ ادا کیا۔ اس موقع پر وزیراعلیٰ بلوچستان اور کورس کے کوآرڈینیٹر کے درمیان شیلڈ زکاتبادلہ کیا گیا۔بعدازاں وزیراعلیٰ بلوچستان کی جانب سے کورس کے شرکاء کے اعزاز میں عشائیہ بھی دیا گیا۔دریں اثناء وزیر اعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے کہاکہ مری معاہدہ میڈیا کے لئے ایک مسئلہ ہوسکتا ہے لیکن میرا ہمیشہ سے یہ موقف رہاہے کہ مری معاہدہ پر وزیر اعظم پاکستان میاں محمدنواز شریف جو فیصلہ کریں گے وہ ہمیں قبول ہوگا۔ یہ بات انھوں نے جمعہ کی رات کو بلوچستان صوبائی اسمبلی کا اجلاس غیر معینہ مدت کے ملتوی ہونے کے بعد میڈیا کے نمائندوں سے اسمبلی اجلاس کے بعد با ت چیت کرتے ہوئے کہی۔وزیر اعلی نے کہاکہ بلوچستان میں بلدیاتی اختیار ا ت کی نچلی سطح تک منتقلی کے خواہاں ہیں تعلیم اور صحت کی طرح لوکل بلدیاتی ادار و ں کو بھی بااختیار کر رہے ہیں انھوں نے دعوی کیاکہ ایسا نہیں کہ و ہ بے اختیار ہیں ا یک پراسس ہے جس کو مکمل ہونا پڑتا ہے بلدیاتی اداروں کیلئے پانچ ارب رو پے مختص کئے گئے ہیں ایک سوال کے جواب مین انھوں نے کہاکہ وفاقی حکو مت کو لکھا ہے کہ وہ افغان مہاجرین کے انخلا کی تاریخ میں تو سیع نہ کریں اور انھیں انکے وطن واپس بجھوا دیں۔جب ان سے پوچھا گیا کہ براہمداغ بگٹی سے آپ کی کیا ملاقات ہوئی ہے تو انہوں نے کہاکہ نو کمینٹس ؟