کوئٹہ ۔اندرون بلوچستان: بلوچستان میں بارشوں کا سلسلہ شدت اختیار کرگیا بارشوں سے مزید 9قیمتی جانیں چلی گئیں ۔زمینی رابطے اور ریلوے ٹریک بہہ جانے سے صوبے کا رابطہ دیگر صوبوں سے منقطع ۔سینکڑوں دیہات گاﺅں اور آبادیاں صفحہ ہستی سے مٹ گئیں ۔مختلف علاقوں میں بڑے پیمانے پر نقل مکانی شروع ۔لاکھوں لوگ بے گھر ۔متاثرین سڑکوں کے کنارے ڈھیرے ڈال لئے ۔سڑکوں کے گرد شہر آباد ہونے لگے ۔تفصیلات کے مطابق بلوچستان میں طوفانی بارشوںکی تباہ کاریاں جاری مزید9افراد جاں بحق اموات کی تعداد 225ہوگئی ،صوبے کا دیگر صوبوں سے زمینی رابطہ منقطع ، ریلوے اور فضائی سروسز بھی متاثر رہیں ، محکمہ پی ڈی ایم اے کی جاری کردہ رپورٹ کے مطابق اتوار کو رواں ماہ کے دوران سیلاب اور بارشوں کے باعث مزید 9اموات کی تصدیق ہوئی ہے 2اگست سے 21اگست کے دوران خضدار اور کوئٹہ میں چار، چارجبکہ قلعہ عبداللہ میں ایک اموات کی تصدیق ہوئی جبکہ ژوب میں اتوار کو دو بچے زخمی ہوئے رپورٹ کے مطابق صوبے میں اب تک ہونے والی اموات کی تعداد بڑھ کر 225جبکہ زخمیوں کی تعداد 95ہوگئی ہے۔
صوبے میں ابتک 26ہزار 567مکانات کو نقصان پہنچا ہے ۔دوسری جانب اتوار کو صوبے میں شدید بارشوں کے باعث ژوب تا ڈیرہ اسماعیل خان، بارکھان تا ڈیرہ غازی خان ، لسبیلہ تا کراچی شاہراہیں مکمل طور پر جبکہ کوئٹہ سبی شاہراہ جزوی طور پر بند رہی اسی طرح سیلابی صورتحال کے باعث کوئٹہ سے اندرون ملک جانے والی جعفر ایکسپریس بھی منسوخ کردی گئی ساتھ ہی کوئٹہ آنے والی جعفر ایکسپریس کو بھی روک دیا گیا کوئٹہ میں بارش کے باعث جہازوں کی آمد و رفت بھی بری طرح متاثر ہوئی ۔اتوار کو شیرانی ، نوشکی ، جعفر آباد، نصیر آباد ، لورالائی،مستونگ، خضدار، پشین ، دکی،لسبیلہ سمیت دیگر علاقوں میں بارشوں کے باعث سیلابی صورتحال پیدا ہوگئی جس سے نشیبی علاقے زیر آب آگئے اور لوگوں نے اپنی مدد آپ تک تحت محفوظ مقامات پر منتقل ہونے کا عمل شروع کردیا ۔ دریں اثنائشدید بارشوں اور سیلابی ریلوں کے باعث بلوچستان کادیگر صوبوں سے ریل رابطہ منقطع ہوگیا ہے۔بلوچستان میں ہونے والی شدید بارشوں نے جہاں مکانات اور دیگر املاک کو تباہ کیا وہیں بجلی کا نظام اور ریلوے ٹریک بھی شدید متاثرہوئے ہیں۔
شدید بارش کے باعث کوئٹہ جانے والے متعدد ریلوے ٹریکس پانی میں ڈوب گئے ہیں جس کے بعد لاہور سے کوئٹہ جانے والی ٹرینیں سکھر تک محدود کردی گئی ہیں جبکہ کوئٹہ سے چلنے والی جعفر ایکسپریس کول پور اسٹیشن سے واپس کردی گئی ہے۔پاکستان ریلوے نے بلوچستان میں آپریشن روکنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ کراچی، پشاور اور لاہور سے کوئٹہ جانے والی ٹرینیں سکھر تک چلیں گی۔ریلوے کی جانب سے جاری بیان کے مطابق حبیب کوٹ، سبی، ڈیرہ مراد جمالی اور نوتال اسٹیشن بند کردیئے گئے ہیں، ان اسٹیشنوں کے ٹریکس پر 6 سے 12 انچ تک پانی اوپر سے گزر رہا ہے۔ترجمان ریلوے کے مطابق ٹریکس کے اوپر سے ایک فٹ تک سیلابی ریلا گزر رہا ہے، صورت حال کنٹرول کرنے کے لیے ریلوے ٹیمیں کام کررہی ہیں۔ حب سے ملنے والی اطلاعات کے مطابقحب ندی سے گزرنے والی سیلابی ریلے میں ایک بچے سمیت دو افراد ڈوب گئے ،ایک نعش کی نکال کی گئی جبکہ بچے کی تلاش جاری ،نعش حب اسپتال منتقل کرنے کے بعدورثاءکے حوالے کردی گئی جبکہ دوسری جانب حب ندی میں نہانے مچھلی شکار پر پابندی دفعہ 144نافذ کے باوجود شہریوں کی ایک بڑی تعداد مچھلی کی شکار اور نہانے میں مصروف جبکہ حب انتظامیہ دفعہ144پر عملدرآمد کرنے میں مکمل ناکام،افسران واہلکاران سیلفی و فوٹو سیشن میں مصروف ۔
اس حوالے سے ایدھی ذرائع کے مطابق اتوار کے روز بلوچ کالونی کے حب ندی میں ایک بچے سمیت دو افراد پانی میں ڈوبنے کی اطلاع پر ایدھی بحری ٹیم نے فوری ریسکیو آپریشن شروع کردی اور ندی میں ڈوبنے والے 37سالہ نیاز علی ولد رب ڈنونامی شخص کی نعش نکال کر جام غلام قادر گورنمنٹ اسپتال حب منتقل کردیا گیا جبکہ بچے کی تلاش کیلئے ریسکیو آپریشن جار ی ہے دونوں کا تعلق حب کے علاقہ بلوچ کالونی سے بتایا جاتا ہے مزید برآں ماہ جولائی میں شروع ہونے والے بارشوں کے بعد حب ندی میں سیلابی صورتحال کے پیش نظر ندی میں میں نہانے اور مچھلی شکار کرنے پر ضلع لسبیلہ انتظامیہ کی جانب سے دفعہ144نافذ کیا گیا تھا لیکن حب انتظامیہ اس پر عملدرآمد کرانے پر مکمل ناکام دکھائی دے رہا ہے بلا خود خطر مچھلی کے شکار اور نہانے میں مصروف ہیں تو انتظامیہ افسران واہلکاران فوٹو سیشن و سیلفی لینے میں مصروف دکھائی دیتے ہیں واضح رہے کہ 25جولائی اور ماہ اگست کے تباہ بارشوں کے بعدحب ندی میں آنے والے سیلابی ریلے اب تک ایک درجن سے زائد انسانی زندگیاں نگل لی ہیں۔ قلات سے ہمارے نامہ نگار کے مطابق قلات میں شدید بارشوں سے پتوکی لانگو بند اور ڈھلو ڈیم ٹوٹ گیا ،بندے کے ٹوٹنے سے ایک درجن کے قریب مکانا ت گر گئے تاہم مکینوں نے اپنی مدد آپ کے تحت محفوظ مقامات پر منتقل ہوکر اپنی جانیں بچائیں ۔ تفصیلات کے مطابق قلات میں گزشتہ ایک مہینے سے وقفے وقفے سے بارش کا سلسلہ جاری ہے گزشتہ روز قلات کے علاقے یونین کونسل چھپر میں دو ڈیمز ٹوٹ گئے جس سے کئی علاقے زیر آب آگئے ،پتوکی لانگو بند ٹوٹنے سے ایک درجن کے قریب رہائشی مکانات گر گئے اور علاقہ مکینوں نے اپنی مدد آپ کے تحت محفوظ مکامات پر منتقل ہو کر اپنی جانیں بچائیں ۔قلات پولیس لائن میں ایک گھر بھی بارشوں کی وجہ سے زمین بوس ہو گئی تاہم اہل خانہ معجزا نہ طور پر محفوظ رہے قلات کے علاقے دشت مغلزئی مغلزئی ۲ دشت محمود کلی پندرانی اور دیگر علاقو ں میں بھی کچے مکانات کو شدید نقصان پہنچا ہے متعدد علاقوں میں دیواریں بھی گر گئے ہیں
جبکہ دہی علاقوں سے آمدہ اطلاعات کے مطابق قلات کا دہی علاقہ پندران لہڑ نیچارہ امیری گزگ ریگواش تخت شیخڑی اور دیگر علاقوں کی زمینی راستے بندہے جس کی وجہ سے ان علاقو ں میں اشیاءخورنوش ادویات ناپید ہو چکے ہیں اور متاثرین حکومتی امداد کے منتظر ہیں مگر حکومتی امداد کا دور دور تک اتا پتہ نہیں مل رہیں متاثرین انتہائی کسم پرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ہرنائی نامہ نگار کے مطابق ہرنائی میں گھر کی چھت گر نے سے خواتین اور بچوں سمیت 5افراد ملبے تلے تب کر شدید زخمی ہو گئے ۔ تفصیلات کے مطابق اتوار کو ہرنائی کے علاقے محلہ نیو جلال آباد میں دو مکانوں کے چھت گر گئی جس کے نتیجے میں3 خواین اور دو بچوں سمیت پانچ افرادملبے تلے دب کر شدید زخمی ہو گئے ۔ ریسکیو حکام نے زخمیوں کو فوری طور پر طبی امدا دکے لئے ہسپتال منتقل کردیا ۔ جہاں ان کی حالت نازک بتائی جاتی ہے۔ مزید کاروائی جا ری ہے ۔لورالائی میں گھر کی چھت گر نے 2مزدور جاں بحق ایک شخص زخمی ہو گیا۔ پو لیس کے مطابق اتوار کو لو رالائی کے علا قے حلقہ چنچن میں گھر کی چھت گرنے سے مجاہدولد محمد ناصر،جاوید ولدغلام محمد جاں بحق جبکہ ایک شخص زخمی ہو گیا۔ پو لیس نے لاشوں اور زخمی کو فوری طور ہسپتال منتقل کر دیا جہاں ضر وری کاروائی کے بعد لا شیں ورثاءکے حوالے کر دی گئیں ۔ مزید کاروائی جا ری ہے ۔نصیر آباد نامہ نگار کے مطابق جعفرآباد کے ہیڈ کوارٹر شہر ڈیرہ اللہ یار تحصیل اوستہ محمد گنداخا اور دیگر شہروں میں چوتھے روز بھی بارش کا سلسلہ جاری رہا ۔تیز طوفانی بارشوں نے ضلع بھر میں تباہی کی داستانیں رقم کر دی ہیں اوستہ محمد کی قربان کالونی میں گھر کی دیوار گرنے سے ایک شخص جاں بحق ہوگیا جبکہ گوٹھ رمدانی میں مکان کی چھت گرنے سے خاتون جان کی بازی ہار گئی جسکے بعد جاں بحق ہونے والوں کی تعداد بڑھ کر 8 ہوگئی ہے ،خواتین اور بچوں سمیت 15 افراد زخمی ہونے کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں ۔ڈیرہ اللہ یار میں 100 سے زائد دیہات مکمل طور پر زیرآب آچکے ہیں جسکے باعث سیکڑوں کچے مکانات منہدم ہوگئے اور ہزاروں افراد قومی شاہراہ دیگر سڑکوں اور مختلف مقامات پر پناہ گزین ہوگئے ہیں اور سیکڑوں افراد کھلے آسمان تلے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں ۔شہر بھر میں بارش کا پانی گھروں میں داخل ہوچکا ہے سڑکیں سرکاری دفاتر جھیل کا منظر پیش کرنے لگے ہیں ۔ڈپٹی کمشنر جعفرآباد رزاق خان خجک اور ضلعی انتظامیہ کے دیگر افسران کی انتھک محنت اور نہروں سے پانی کا دباو کم کرنے کے لئے لگائے گئے کٹس کے باعث پٹ فیڈر کینال سے آنے والے سیلابی ریلے کا رخ ڈیرہ اللہ یار سے موڑ دیا گیا۔
اور شہر سے سیلاب کا خطرہ عارضی طور پر ٹل گیا ہے ۔ضلعی انتظامیہ سماجی تنظیمیں اور شہر کے نوجوان برسات متاثرین کی امداد میں متحرک ہیں ضلعی انتظامیہ نے 400 سے زائد برسات متاثرین کو خیمے ایک ہزار متاثرین کو راشن فراہم کر دیا ۔سماجی تنظیم اللہ اکبر تحریک، آل رائس مزدور یونین، ہندو پنچائت اور نوجوانوں کی جانب سے اپنی مدد آپ کے تحت یومیہ بنیادوں پر پکا پکایا کھانا متاثرین کو فراہم کیا جا رہا ہے تاہم پی ڈی ایم اے اور بلوچستان حکومت کی جانب سے متاثرین کی امداد اور ریسکیو کے لئے کسی قسم کے اقدامات نہیں اٹھائے گئے۔سوراب نامہ نگار کے مطابق مون سون کے حالیہ اسپیل نے سوراب میں تباہی مچادی، شہر سمیت دوردراز دیہی علاقے مولی خل بھٹ ، چرک اور جیوا میں سینکڑوں مکانات منہدم یا ناقابل رہائش بن چکے ، مقامی انتظامیہ دستیاب وسائل میں ہرممکن ریلیف فراہم کرنے میں مصروف تاہم بڑے پیمانے پر ہونے والی نقصانات کے مقابلے میں وسائل اور امدادی سرگرمیاں ناکافی ہیں، صوبائی حکومت اور غیر سرکاری فلاحی اداروں سے سوراب میں بارشوں سے ہونی والی نقصانات کے ازالے اور متاثرین کی بحالی کے لئے ترجیحی بنیادوں پر اقدامات اور توجہ مبذول کرنے کی اپیل۔ تفصیلات کے مطابق مون سون سیزن کے حالیہ اسپیل نے ضلع سوراب کو ہلا کر رکھ دیا ہے، وقفے وقفے سے جاری موسلا دھار بارشوں سے ضلع بھر میں ہزاروں ایکڑ پر زیرکاشت زرعی فصلات سیلابی ریلوں کی نذر ہوکر تباہ ہوچکی ہیں جبکہ سینکڑوں کی تعداد میں رہائشی مکانات منہدم یا ناقابل رہائش بن چکے ہیں ندی نالوں میں طغیانی کے باعث رابطہ سڑکیں بھی شدید متاثر ہوچکی ہیں،تاہم اس مخدوش صورتحال میں سوراب انتظامیہ کی کارکردگی اطمینان بخش ہے ڈپٹی کمشنر سوراب جلال الدین خان کاکڑ اس تمام تر صورت حال میں انتہائی فعال کردار کررہے ہیں، گزشتہ دو ماہ سے جاری مسلسل بارشوں نے ضلع سوراب کے دور دراز علاقوں مولی جیوا لاکھوریان خل بھٹ چرک گدر چھڈ اور کئی دیگر بستیوں کا نقشہ بدل کر رکھ دیا ہے، لوگوں کا واحد ذریعہ معاش زراعت کا شعبہ بلکل تباہ ہونے کے باعث کاشت کاروں کی سال بھر کی کمائی سیلابی ریلوں کی نذر ہوچکی ہیں اور وہ فاقہ کشی پر مجبور ہیں، کچے مکانات یا تو گرکر منہدم ہوگئے ہیں یا پھر خستہ حالی کی وجہ سے ناقابل رہائش بن چکے ہیں جن میں مزید رہائش اختیار کرنا اب خطرے سے خالی نہیں اس صورتحال میں مکینوں کے پاس کھلے آسمان تلے زندگی گزارنے کے سوا کوئی چارہ نہیں، جھل مگسی نامہ نگار کے مطابق جھل مگسی میں گزشتہ ایک ہفتے سے مسلسل وقفے وقفے سے جاری بارشوں سے معمولات زندگی بھری طرح متاثر ہوگئی ہے ۔
تیز بارشوں سے گنداواہ شہر و گردونواح کے بیشتر علاقوں کو سخت متاثر کردیا ہے ،گنداواہ جھل مگسی درگاہ فتح پور نوشہرہ کھاری کوناڑہ پتری گہیلا قاضی اسماعیل گاجان کوٹڑہ کھمبی پاچھ میرجت کھنجانی آخوندانی گوٹھ خدابخش رند گوٹھ لعل جان لاشاری گوٹھ واہی یاکی گوٹھ حاجی علی مردان شمبانی ، گوٹھ باریجہ، گوٹھ وزدانی ،گوٹھ ساکھانی مگسی ، سمیت سینکڑوں کچے مکانات منہدم ہو گئے ہیں ۔گھروں کے دیواریں زمین بوس ہو گئی ہیں گنداواہ شہر سمیت ضلع جھل مگسی میں ہنگامی صورتحال برقرار ہے۔ دریائے مولہ میں اونچے درجے کا سیلاب سنٹھ کے مقام پر محکمہ ایریگیشن کے مطابق ستر ہزار سے زائد کیوسک پانی گنداواہ کی رابطہ سگھڑی پل سے گزر رہا ہے ۔گزشتہ شب سے شروع ہونے والی موسلادھار طوفان بارش نے پورے شہر کو جل تھل کردیا ہے شہر کے تمام علاقوں گلی کوچے ندی نالوں میں تبدیل ہوگئے۔