|

وقتِ اشاعت :   November 26 – 2015

کوئٹہ :  بی ایس او آزاد کی بیسویں مرکزی قومی کونسل سیشن بیاد بابا خیر بخش مری، شہید رضا جہانگیر، کمبر چاکر، شفیع بلوچ، کامریڈ قیوم، شکور بلوچ، کمال بلوچ ،رسول جان ،اکرام بلوچ و شہدائے آزادی، بنام چیئرمین زاہد بلوچ، چیئرمین ذاکر مجید بلوچ، سمیع مینگل، آصف قلندرانی بلوچ، ڈاکٹر دین محمد، غفور بلوچ، رمضان بلوچ و اسیرانِ آزادی یکم نومبرکو بانک کریمہ بلوچ کی صدارت میں شروع ہوا۔سیشن میں قائم مقام چیرپرسن بانک کریمہ بلوچ کی افتتاحی خطاب، تنظیمی سابقہ کارکردگی رپورٹ، آئین سازی ،تنظیمی امور، تنقید برائے اصلاح و سوال جواب، علاقائی و بین الاقوامی سیاسی صورت حال، اختتامی خطاب، اور آئندہ لائحہ عمل کے ایجنڈے زیر بحث رہے۔عظیم بلوچ شہدا کی یاد میں خاموشی اور قومی ترانے کے بعد سیشن کی کاروائی کا آغاز کیا گیا۔ سیشن کے پہلے دن کی کاروائی میں بانک کریمہ بلوچ نے افتتاحی خطاب کرتے ہوئے کہاکہ اگرچہ گزشتہ سیشن سے موجود ہ سیشن کے انعقاد تک کاسفر بظاہر مختصر رہا، لیکن تین سالوں میں آنے والے مشکلات اور تکالیف اور تجربات کی بنیاد پر دیکھا جائے تو بی ایس او آزاد نے اس دوران ایک طویل سفر طے کیا ہے۔ گزشتہ قومی کونسل سیشن کے بعدنئے سرے سے بی ایس او آزادنے سائنسی بنیادوں پر اپنی سرگرمیاں شروع کیں۔یونیورسٹی اور کالجوں میں نوجوانو ں کی تربیت کے ساتھ ساتھ بلوچستان کے دور دراز علاقوں میں بھی نوجوانوں کو تنظیم سے وابستہ رکھنے کے لئے لیڈران نے قربانیاں دی ہیں۔تنظیم کی فعالیت اور نوجوانوں میں پزیرائی کو دیکھ کر ریاستی اداروں نے بلوچ قومی تحریک کے خلاف بھرپور پروپگنڈے کا آغاز کیا ۔ بی ایس او آزاد کے خلا ف ریاستی کریک ڈاؤن میں انتہائی شدت لائی گئی تاکہ بلوچ نوجوانوں کو تنظیمی و سیاسی تعلیم سے بے بہر کیا جا سکے ۔تنظیمی سرگرمیوں سے خائف ریاستی ادارے جوکہ تنظیم پر غیر اعلانیہ پابندی پہلے ہی لگا چکے تھے، مارچ 2013میں باقاعدہ بی ایس او آزاد کو کالعدم قرار دیا گیا۔گزشتہ سیشن کے بعدریاستی کریک ڈاؤن میں شدت لانے کے ساتھ ساتھ اصلاح و تنقید،غوروفکر کے نام پر ایک الگ محاز تنظیم و تحریک کے خلاف شروع کی گئی ،لیکن مستقل مزاج کارکنان و لیڈران کی قربانیوں کی بدولت بی ایس او آزاد نہ صرف روز بہ روز فعال ہو تا رہا بلکہ بلوچ عوام میں بھی اپنی سرگرمیاں مختلف شکلوں میں جاری رکھا۔ لٹریچر و دیگر پروگرامز سے عوام کی تربیتی پروگرامز بدستور جاری رہے۔بانک کریمہ بلوچ نے کہا کہ ایک طرف جہاں ریاستی دباؤ و پروپیگنڈوں سے تنظیم کو جوائن کرنے والے نوجوان مایوسی و انتشار کا شکار ہونے لگے، تو دوسری طرف بی ایس او آزاد کے سینئر ممبران میں سے چند نے دانستہ طور پر پروپیگنڈوں کا ساتھ دے کر غیر سیاسی سرگرمیوں کا شعوری و لاشعوری طور پر حصہ بن گئے اوربی ایس او آزاد کی پالیسیوں کو میڈیا میں لاکر اُچھالنے اور تنظیمی لیڈر شپ کے خلاف منافقت کی حد تک پروپگنڈوں کا حصہ بن گئے۔ اوربی ایس او آزاد کی پالیسیوں کے برعکس نومنتخب لیڈران کی شناخت کو میڈیا میں ظاہر کیا گیا۔با نک کریمہ بلوچ نے کہا کہ اگر اُن سخت حالات میں بی ایس او آزاد کی موجودہ لیڈر شپ مقابلہ کرنے کے بجائے میڈیا پروپیگنڈوں کا شکار ہوتی تو آج بی ایس او آزاد کی موجودہ شکل ہمارے سامنے نہ ہوتی۔انہوں نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ شہید رضا جہانگیر بلوچ کی شہادت اور چئیرمین زاہد بلوچ کی گر فتاری کے بعد بعض حلقے مایوسی کی حالت میں تنظیم کے بارے میں منفی قیاس آرائیاں کرنے لگے۔لیکن وقت نے ثابت کردیا کہ چیئرمین زاہد بلوچ، رضاجہانگیر کی قربانیوں و تنظیم کے مخلص جہد کاروں کی جدوجہد نے تنظیم کو کسی نقصان کا شکار ہونے نہیں دیا۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس گزشتہ تحریکوں کی کمزوریوں کے تجربات ہیں، گزشتہ ادوارمیں تحریک اس وجہ سے اپنا تسلسل برقرار رکھنے میں کامیاب نہیں ہوئے کہ وہاں سیاست کو عوام تک منتقل کرنے کے بجائے ایک حلقے تک محدود رکھا گیا تھا۔ لیکن آج اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہماری تحریک ماضی کا حصہ نہ بن جائے تو ہمیں بلوچ عوام کی سیاسی تربیت کرنا ہو گا۔بانک کریمہ بلوچ نے کہا کہ ہمیں اس بات پر سنجیدگی سے غور کرنا ہو گا کہ ہم پاکستان جیسی ریاست سے اپنی آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں،آزادی جیسے عظیم مقصد کے حصول کے لئے ہر قسم کی قربانی کے لئے ہمیں ہمہ وقت تیار رہنا ہو گا۔افتتاحی خطاب کے بعد مرکزی سکریٹری جنرل نے مرکزی سیکرٹری رپورٹ پیش کی گئی ۔اجلاس کے دوسرے روز میں تیسرے ایجنڈے آئین سازی پر سیر حاصل مباحثہ کے بعد تنظیمی آئین میں ضروری ترامیم لائی گئیں۔سیاسی صورت حال کے ایجنڈے پر مباحثہ کرتے ہوئے رہنماؤں نے کہا دنیا کی سیاست میں مستقل دوست و مستقل دشمن کا تصور موجود نہیں۔ کیوں کہ دنیا کے تمام ممالک اپنے مفادات کو اولیت دے کر ہی اپنی پالیسیاں تشکیل دیتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بدلتی ہوئی عالمی منظر نامے میں چائنا کا ایک انتہائی متحرک کردار ہے۔ایک معاہدے کے تحت پاکستان نے چین کو گوادر میں ہزاروں ایکٹراراضی 40سالہ لیز پر دیا ہے۔اس اراضی پر چین 46بلین ڈالرکی سرمایہ کاری کریگی۔گوادر سمیت بلوچستان بھر میں چائنا سمیت دوسرے ممالک و کمپنیوں کی معاہدات و سرمایہ کاری سے بلوچستان میں بہت بڑے ڈیموگرافک تبدیلی لانے کی سازشیں کی جارہی ہیں۔چائنا کو سستے داموں بلوچستان میں لامحدود سرمایہ کاری کی اجازت در اصل بلوچستان کو چین کی جدید نو آبادی بنانا ہے، جسے کوئی بھی بلوچ قبول نہیں کرے گا۔ چائنا اپنے روایتی حریف ممالک پر دباؤ بڑھانے اور اپنے فوجی مفادات کو تحفظ دینے کے لئے بلوچستان میں معاشی سرمایہ کاری کے نام پر کھربوں ڈالر اس جنگ میں جھونک چکا ہے۔ پاکستان جیسے غیر ذمہ دار و ناقابلِ بھروسہ ریاست پرچائنا کا بھروسہ اصل میں بلوچستان کے اہم جغرافیہ کی وجہ سے ممکن ہوا ہے۔ رہنماؤں نے کہا کہ چائنا اپنے مفادات کی تکمیل کے لئے پاکستانی فوج کی عسکری مدد کرکے بلوچ قومی تحریک کو کاؤنٹر کرنا چاہتی ہے تاکہ گوادر تا چائنا اکنامک کوریڈور ، گیس پائپ لائنوں اور فائبر آپٹکس کی تعمیر کو محفوظ بنایا جا سکے۔ بلوچستان میں چائنا کی سرمایہ کاری جہاں عالمی امن کے لئے خطرے کا باعث ہے وہیں پر بلوچ قومی شناخت کو بھی اس سے سنجیدہ خطرات لاحق ہیں۔کیوں کہ ان سڑکوں کی تعمیر کی صورت میں دونوں ریاستوں کی جانب سے اپنی آبادیوں کو بلوچستان میں منتقل کرنے کا ایک نہ ختم ہونے والا جو سلسلہ شروع ہو چکا ہے وہ انتہائی شدت اختیار کر جائے گا۔ بلوچستان کے جغرافیہ کی وجہ سے دوسرے ممالک بھی بلوچستان میں اپنا اثر رسوخ بڑھانا چاہتے ہیں۔