امریکی صدر جو بائیڈن نے الزام عائد کیا ہے کہ سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کے حامی ایک شدت پسند نظریے کو فروغ دے رہے ہیں جس سے جمہوریت کو خطرہ ہے۔
غیر ملکی خبر رساں ایجنسی ’اے ایف پی‘ کے مطابق امریکا کے شہر فلاڈیلفیا میں آزادی ہال میں ایک تقریب سے خطاب میں انہوں نے کہا کہ آج ہمارے ملک میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ معمول سے ہٹ کر ہے، ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کے حامیوں کا نعرہ ’میک امیرکا گریٹ اگین‘ (امریکا کو دوبارہ عظیم بنائیں) انتہا پسندی کی نمائندگی کرتے ہیں جو کہ ہماری جمہوری بنیادوں کے لیے خطرہ ہے‘۔
انہوں نے کہا کہ ’ڈونلڈ ٹرمپ کے حامی جب یہ نعرے لگاتے ہیں تو وہ دراصل آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کو تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہیں، جن اقدامات کو وہ پسند نہیں کرتے ان کے جواب میں تشدد کی بات کرتے ہیں اور عوام کی مرضی کو کچلتے ہیں‘۔
جو بائیڈن نے کہا کہ ’یہ نعرہ لگانے والے ریپبلکنز نے خود اس طرز عمل کا انتخاب کیا ہے، وہ غصے کا اظہار کرتے ہیں، افراتفری کو پروان چڑھاتے ہیں اور وہ سچ کی روشنی میں نہیں بلکہ جھوٹ کے سائے میں رہتے ہیں‘۔
انہوں نے وضاحت کی کہ ’میں جانتا ہوں کہ ریپبلکن کا ہر رکن اس انتہا پسند نظریے کو قبول نہیں کرتا کیونکہ میں ریپبلکنز کے کئی مرکزی رہنماؤں کے ساتھ کام کر چکا ہوں‘۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ ان تمام 7 کروڑ 40 لاکھ امریکیوں کی مذمت نہیں کر رہے جنہوں نے 2 برس قبل ڈونلڈ ٹرمپ کو ووٹ دیا تھا، ہر ریپبلکن حتیٰ کہ ریپبلکنز کی اکثریت کو بھی اس میں شمار نہیں کیا جاسکتا۔
تاہم انہوں نے کہا کہ ’لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ آج ریپبلکن پارٹی پر ڈونلڈ ٹرمپ اور یہ نعرہ لگانے والوں کا غلبہ ہے اور یہ اس ملک کے لیے خطرہ ہے‘۔
امریکی صدر نے کہا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے حامیوں نے گزشتہ سال کیپیٹل ہل پر دھاوا بولنے والے ہجوم کو بغاوت پسندوں کے بجائے محب وطن گردانا۔
انہوں نے کہا کہ ’ایک طویل عرصے تک ہمیں امریکی جمہوریت کی مضبوطی کی ضمانت دی گئی لیکن ایسا نہیں ہے، ہمیں اس کا دفاع کرنا ہے، اس کی حفاظت کرنی ہے اور ہم میں سے ہر ایک کو اس کے لیے کھڑے ہونا ہے‘۔
جو بائیڈن نے ان لوگوں کو امریکی جمہوریت کے بنیادی اصولوں کے لیے خطرہ قرار دیا جو ڈونلڈ ٹرمپ کے 2020 کے انتخابات میں دھاندلی کے جھوٹے دعوے کو قبول کر چکے ہیں اور آنے والے 2022 کے وسط مدتی انتخابات میں خلل ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں‘۔
جو بائیڈن نے کہا کہ ’جمہوریت اس طرح زندہ نہیں رہ سکتی جب ایک فریق یہ سمجھے کہ انتخابات کے صرف 2 ہی نتائج ہو سکتے ہیں کہ یا تو وہ جیت جائے یا پھر ان کے ساتھ دھاندلی کی گئی ہے، یہی وہ مقام ہے جہاں یہ نعرہ بلند کرنے والے آج کھڑے ہیں‘۔
خیال رہے کہ امریکی صدر کی جانب سے اپنے سیاسی حریفوں پر کڑی تنقید وسط مدتی انتخابات سے 2 ماہ قبل سامنے آئی ہے جو واشنگٹن میں طاقت کے توازن کا فیصلہ کریں گے۔