|

وقتِ اشاعت :   September 2 – 2022

صوبہ بلوچستان کو اگر مسائلستان کا نام دیا جائے تو یہ بے جا نہ ہوگا یا یوں کہا جائے کہ مسائلستان ہی بلوچستان ہے تو یہ دریا کو کوزے میں بند کرنے والی بات ہوگی۔ یہ صوبہ رقبے اور زمینی اعتبار سے جتنا وسیع و عریض ہے مسائل کے اعتبار سے بھی ویسا ہی کشادہ اور بھرپور ہے ، بلوچستان کا بارڈر ملک کے باقی تینوں صوبوں کے علاوہ دو مسلم برادر ملکوں سے بھی جڑاہوا ہے۔اگرچہ اس صوبے کو ہر طرح کے مسائل اور خطرات درپیش ہیں لیکن یہ بات بھی سچ ہے کہ اس میں وسائل اور قدرتی نعمتوں کی بھی کمی نہیں۔ ہاں یہ اور بات ہے کہ یہ وسائل یہ نعمتیں صوبے کے حق میں کبھی فائدہ مند ثابت نہ ہوسکیں جو کہ سب سے بڑا المیہ ہے۔ خیر بات ہورہی تھی بلوچستان یا مسائلستان۔ یہ بات بالکل واضح اور عیاں ہے کہ بلوچستاں میں امن و مان کی صورتحال بد قسمتی سے کبھی پْرسکون نہیں رہی مگر حالیہ سیلاب کی صورت حال نے بھی سب سے پہلے بلوچستان کا رخ کیا اور وسیع پیمانے پر تباہی پھیلائی،جن اضلاع میں سیلابی صورتحال سے سب سے زیادہ تباہی پیدا ہوئی ان میں لسبیلہ، کوئٹہ،بولان،سبی ،جعفر آباد،صحبت پور،ڈیرہ بگٹی،کوہلو،بارکھان،لورالائی،قلعہ سیف اللہ،زیات،نوشکی اور چمن سمیت بلوچستان کے دیگر اضلاع شامل ہیں۔ ہلاقتوں کی تعداد بھی سینکڑوں میں ہے جن کی صحیح تعداد اس لئے بتانا مشکل ہے کہ بلوچستان کے اکثر اضلاع تک میڈیا کی رسائی ہی نہیں۔
اگر میڈیا رپورٹس اور محکمہ موسمیات کی پیشگی اطلاعات کو سامنے رکھا جائے تو یہ معلوم ہوتا ہے اس صورتحال کا ایک ماہ قبل ہی بتادیا گیا تھا۔ مگر پوچھے تو کون؟! وزیر اعلیٰ سمیت صوبے کے تمام وزیر اور مشیر بے بسی کا اظہار کرتے ہیں۔ اگر انکی پچھلی کارکردگی اور لاپرواہی کو دیکھا جائے تو بندہ انگشت بدنداں رہ جاتا ہے کہ شاید یہ لوگ بلوچستان کو اپنا گھر ہی نہیں سمجھتے۔ اس ضمن میں اگر ضلع لسبیلہ کی مثال دی جائے تو سب کچھ واضح ہوجاتا ہے۔ لسبیلہ سے سالانہ 500 سے زائدملین ٹن کا زنک نکالا جاتا ہے جس کے عوض ہر سال بلوچستان حکومت کو اربوں روپے دیئے جاتے ہیں۔ صرف 2021 میں بلوچستان حکومت کو تقریباً 1050 ملین روپے دیئے گئے تھے مگر پھر بھی صورتحال دگرگوں ہے۔ اسی طرح اگر ڈیرہ بگٹی اور کوہلو کو دیکھیں تو وہاں پر بھی چراغ تلے اندھیرا ہی ہے۔ ڈیرہ بگٹی میں چار بڑے گیس فیلڈز ہیں مگر وہاں کے لوگ پتھر کے زمانے میں زندگی گزار رہے ہیں۔ اکثر لوگ لکڑیاں جلا کر گھر کا چولہا جلاتے ہیں،کچے مکانات میں رہتے ہیں،جوہڑوں اور تالابوں کا پانی پیتے ہیں،یہ مثال ہے ملک کے اْس ضلع کا جو وسائل کے اعتبار سے ملک کا امیر ترین علاقہ ہے مگر بدقسمتی سے سہولیات اور ترقی کے اعتبار سے ہمیشہ غریب ترین اضلاع میں شمار ہوتا رہا ہے۔اِسی ضلع میں اگر موجودہ سیلابی تباہ کاریوں کو دیکھا جائے تو دل خون کے آنسو روتا ہے۔ اکثر لوگ چونکہ کچے مکانات میں رہتے ہیں اس لئے پوری بستیاں ہی ملیامیٹ ہوچکی ہیں۔ موجودہ سیلابی تباہ کاریوں سے سب سے زیادہ نقصان کچی آباد یوںکو پہنچا جو کہ ضلع میں اسی فیصد سے زیادہ ہیں۔ ڈیرہ بگٹی میں گزشتہ کئی دنوں سے نیٹ ورک کا نظام بھی مکمل طور پر غیر فعال ہے۔ ساہ آف،لوپ اور پھیلاوغ کے علاقوں میں لوگ شدید مشکلات کا شکار ہیں امدادی ٹیمیں بھی صحیح معلومات نہ ہونے کی وجہ سے ان علاقوں میں جانے سے گریزاں ہیں۔ لوپ کے علاقے میں تو لوگوں کے نوے فیصد مکانات گرچکے ہیں اور باقی دس فیصد بھی قابلِ رہائش نہیں ہیں۔ اموات کی رپورٹ بھی میڈیا تک نہیں پہنچتی کیونکہ وہاں پر میڈیا سیل موجود ہی نہیں۔ ابھی کچھ دنوں پہلے کی بات ہے کہ سوئی کے قریب کوئٹہ سے آنے والی فیملی کے دو میڈیکل طالبات سیلابی ریلے میں بہہ گئیںاور ان کی لاشیں تک نہ ملیں۔
اسی طرح ضلع کوہلوجو پورے پاکستان کا پسماندہ ترین ضلع ہے مگر وسائل کے اعتبار سے اس ضلع کو بھی خداوند تعالیٰ نے نوازا ہے۔ یہاں پر کوئلہ کے وسیع ذخائر موجود ہیں مگر مقامی لوگ پھر بھی اندھیروں میں رہتے ہیں۔
مزیدبرآں کوئٹہ جو بلوچستان کا دارالحکومت اور سب سے بڑا شہر ہے اس میں بھی پچھلے دو ہفتوں سے بجلی اور گیس کا نظام مکمل طور پر معطل ہے۔ اور کوئٹہ بولان راستہ بھی گزشتہ کئی دنوں سے بند ہے۔
کہاں تک سنوگے کہاں تک سناؤں
ہزاروں ہی شکوے ہیں کیا کیا بتاؤں۔
اس لئے بلوچستان کو مسائلستان کہنا ہرگز بے جانہ ہوگا،اس میں پے درپے بحرانوں کا سوچ کر اعصاب ٹوٹنے لگتے ہیں۔ مشتاق احمد صاحب نے کیا خوب فرمایا تھا۔
کشتیاں ٹوٹ چکی ہیں ساری
اب لئے پھرتا ہے دریا ہم کو