مون سون کی غیر معمولی اور طویل بارشوں کے باعث آنے والے سیلاب کی وجہ سے پاکستان کے چاروں صوبوں میں کروڑوں لوگ متاثر ہوئے ہیں۔ نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے مطابق سیلاب سے متاثرہ 110 اضلاع میں گزشتہ ڈھائی ماہ کے عرصہ میں گیارہ سو سے زیادہ افراد کی اموات ہو چکی ہیں جبکہ ساڑھے تین کروڑ سے زائدافراد کے بے گھر ہونے کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں ساڑھے نو لاکھ مکانات اور عمارتوں کو نقصان پہنچا ہے جبکہ دیہی علاقوں میں آٹھ لاکھ سے زیادہ مویشی مر گئے ہیں۔ اس حوالے سے صوبہ سندھ کی صورتحال سب سے زیادہ گھمبیر ہے جہاں 16اضلاع کی50 لاکھ سے زیادہ آبادی سیلاب کے باعث بے گھر یا متاثر ہوئی ہے۔ بلوچستان کے 34اضلاع کے چار لاکھ سے زائد افراد متاثرین میں شامل ہیں جبکہ صوبہ پنجاب کے آٹھ اضلاع میں ساڑھے چار لاکھ سے زیادہ شہری بارشوں اورسیلاب کے باعث بے گھر ہو چکے ہیں۔ اسی طرح صوبہ خیبرپختونخوا کے 33اضلاع میں سیلاب سے متاثرہ افراد کی تعداد کا تخمینہ 50ہزار سے زیادہ کا لگایا گیاہے۔
واضح رہے کہ اس سے پہلے 2010ء میں بھی پاکستان کو بڑے پیمانے پر آنے والے سیلاب کی وجہ سے ایسی ہی صورتحال کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ سرکاری ریکارڈ کے مطابق اس سیلاب میں 1700 سے زائد افراد جاں بحق جب کہ 20لاکھ سے زائد لوگ براہ راست متاثر ہوئے تھے۔ اس سیلاب کی وجہ سے ملک کے مجموعی قابلِ کاشت رقبے میں سے 20 فیصد پر موجود فصلیں تباہ ہوئیں اور 11لاکھ 20 ہزار 978مکانوں کو نقصان پہنچا تھا۔ اس سیلاب کی وجہ سے مجموعی طور پر 1710ارب روپے کا نقصان ہوا تھا جب کہ تعمیرِ نو کی سرگرمیوں پر 1156ارب روپے کے اخراجات آئے تھے۔بہرحال حالیہ سیلاب نے تمام ریکارڈ توڑ دیئے ہیں اب تک صورتحال کنٹرول میں نہیں آرہی ہے بلوچستان کے بیشتر اضلاع سے یہ شکایات موصول ہورہی ہیں کہ انہیں امدادی سامان نہیں مل رہا ہے کھلے آسمان تلے زندگی گزار رہے ہیں آلودہ پانی سے بچے بزرگ سب ہی بیمار پڑرہے ہیں خاص کر نصیرآباد میں یہ شکایات سامنے آئی ہیں جبکہ مسلم باغ میں بھی صورتحال خراب ہے چیلنجز اور مشکلات بہت زیادہ ہیں سیلاب متاثرین کی بحالی کے لیے بہت زیادہ عرصہ درکار ہے۔
دوبارہ ان کی زندگی معمول پر لانے کے حوالے سے فی الحال کچھ نہیں کہا جاسکتا مگر انہیں سہولیات فراہم کرنے کے حوالے سے جنگی بنیادوں پر اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے تاکہ ان کا گزربسر بہتر انداز میں ہوسکے کیونکہ بڑے پیمانے پر گھروں کی تعمیر، زمینوں کو آباد کرنا، شاہراہوں کی تعمیر سمیت دیگر نقصانات کا تخمینہ بہت زیادہ ہے اس کے لیے سالوں لگ جائینگے مگر تسلسل کے ساتھ اس جانب توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ بحالی کے حوالے سے کیا حکمت عملی اپنائی جائے، انہیں بے یارومددگار نہ چھوڑا جائے اور نہ ہی درپہ در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہوجائیں کیونکہ ماضی میں یہ دیکھنے کو ملا ہے کہ اس طرح کی آفت کے دوران بھی کرپشن ہوئی، بے حسی کی انتہاء ہے اب بھی دیکھاجارہا ہے کہ متاثرین کو مہنگے داموں اشیاء فروخت کی جارہی ہیں، ناجائز منافع ان سے وصول کیاجارہا ہے جبکہ ساتھ ہی فصلوں کی تباہ کاری کے باعث سبزیوں، پھلوں سمیت غذائی اجناس کی قیمتیں بڑھادی گئی ہیں۔ بلوچستان میں گیس بجلی کے بعد آٹا غائب کردیا گیا ہے جہاں دستیاب ہے وہاں مہنگے داموں فروخت کی جارہی ہے لوگ ترس رہے ہیں مگر منافع خوروں نے تمام انسانی حدیں پھلانگ کر رکھ دی ہیں جن کے خلاف سخت ایکشن لینے کی ضرورت ہے تاکہ لوگوں کے ساتھ یہ زیادتی کا سلسلہ بند ہوجائے۔