|

وقتِ اشاعت :   December 2 – 2015

اسلام آباد: پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر حملے میں ملوث 4 دہشت گردوں کو پھانسی دے دی گئی۔ چاروں ملزمان کو خیبر پختونخوا کی کوہاٹ جیل میں پھانسی دی گئی۔ قبل ازیں صدر ممنون حسین نے ان دہشت گردوں کی رحم کی اپیل بھی مسترد کر دی تھی، جس کے بعد ان کے بلیک وارنٹ جاری ہوئے۔ یہ چاروں اولین مجرمان ہیں جن کو فوجی عدالتوں سے سزاء موت سنائی گئی اور ان کی سزاء پر عملدرآمد ہوا۔
یاد رہے کہ آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر حملے میں ملوث چاروں خطرناک دہشت گردوں کے بلیک وارنٹ پر 30 نومبر کو دستخط کیے تھے.
پاک افواج کے شعبہ تعلقات عامہ انٹرسروسز پبلک ریلیشنز (آئی ایس پی آر) کی جانب سے جاری کیے گئے بیان کے مطابق جن دہشت گردوں کے بلیک وارنٹ جاری کیے گئے، ان کے نام مولوی عبدالسلام ولد شمسی ، حضرت علی ولد اول باز خان، مجیب الرحمٰن عرف علی نجیب اللہ ولد گلاب جان اور سبیل عرف یحیٰ ولد عطاء اللہ تھے۔ یاد رہے کہ پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر 16 دسمبر 2014 کو کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے دہشت گردوں نے حملہ کرکے 150 سے زائد افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا،جن میں زیادہ تر تعداد معصوم بچوں کی تھی. مذکورہ دہشت گرد اُن 7 مجرمان میں شامل تھے جنھیں رواں برس اگست میں فوجی عدالت کی جانب سے سزائے موت سنائی گئی تھی۔
آئی ایس پی آر کے اس وقت کے اعلامیے کے مطابق سزا پانے والوں کو فیئر ٹرائل کا موقع دیا گیا اور انہیں اپیل کا حق حاصل تھا، جبکہ سزا دینے سے قبل تمام قانونی تقاضے بھی پورے کیے گئے اور مجرمان کو قانونی معاونت فراہم کی گئی تھی۔

سزا پانے والے مجرمان کی تفصیل

موت کی سزا پانے والے مجرم مولوی عبدالسلام، توحید الجہاد کو خودکش بمباروں کو تیار کرنے کا مجرم پایا گیا جنہیں بعد میں آرمی پبلک اسکول حملے کے دوران استعمال کیا گیا۔ اس کے علاوہ مجرم نے دو کرنلوں اور این ڈی سی کے ڈائریکٹر کو قتل کرنے کابھی اعتراف کیا۔ موت کی سزا پانے والے حضرت علی، توحید الجہاد کے سرگرم کارکن تھے۔ انھیں قانون نافذ کرنے والے اداروں پر حملے، لیویز اہلکاروں کے اغوا اور قتل اور آرمی پبلک اسکول حملے کے لیے فنڈز اکٹھا کرنے پر قصور وار پایا گیا۔ سزا پانے والے مجرم مجیب الرحمان عرف علی عرف نجیب اللہ اور سبیل عرف یحیٰ بھی توحید الجہاد کے سرگرم کارکن تھے۔ انہیں پشاور میں پاک فضائیہ کی بیس پر حملہ کرنے والے 10 خودکش بمباروں کو منتقل کرنے اور آرمی پبلک اسکول پر حملہ کرنے پر اکسانے کا قصوروار پایا گیا۔ خیال رہے کہ پاکستان میں گزشتہ 6 سال سے غیر اعلانیہ طور پر پھانسی پر عملدرآمد پر پابندی عائد تھی جبکہ دسمبر 2014 میں آرمی پبلک اسکول پر حملے میں 132 بچوں سمیت 150 سے زائد افراد کی ہلاکت کے بعد پھانسی پر عملدرآمد شروع کیا گیا۔ دسمبر 2014 کے بعد سے 11 ماہ میں 300 سے زائد افراد کو پھانسی دی جا چکی ہے۔ واضح رہے کہ دہشت گردوں کے عدالتی ٹرائل تیز کرنے کے لیے رواں برس اپریل میں آئین میں ترمیم کرکے 2 سال کے لیے فوجی عدالتیں قائم کی گئی تھیں جس کے بعد اس کے خلاف عدالتی کارروائی بھی کی گئی البتہ اگست میںسپریم کورٹ نے 21ویں آئینی ترمیم کے حق میں فیصلہ سنایا اور یوں فوجی عدالتوں کو باقاعدہ کام کی اجازت ملی۔