کوئٹہ : سیلاب سے متاثرہ خاندانوں کو اب بھی امداد کی ضرور ت ہے۔ وفاقی و صوبائی حکومتیں متاثرین کی بحالی کے لئے تمام وسائل بروئے کار لارہی ہیں۔
ہم ذاتی طور پر اپنی حتی الوسع کوشش کر رہے ہیں کہ زیادہ سے زیادہ سیلاب متاثرین تک محفوظ پناہ گاہ اور کھانے پینے کی اشیاء کے ساتھ ساتھ دیگر ضروری اشیاء پہنچائی جائیں۔
ان خیالات کا اظہار مرکزی نائب صدر بلوچستان عوامی پارٹی و فوکل پرسن برائے امداد سیلاب زدگان بلوچستان سینیٹر ثمینہ ممتاز زہری نے حب میں سیلاب زدگان میں راشن اور دیگر ضروری اشیاء کی تقسیم کے موقع پرکیا۔
انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس کی پاکستان آمداور سیلاب متاثرین کی داد رسی اور پاکستانی عوام کے لئے نیک خواہشات قابل تحسین ہیں۔سینیٹر ثمینہ ممتاز زہری نے اس موقع پر میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ہم حکومتی مشنری کے ساتھ ساتھ ذاتی طور پر اپنے عوام کی داد رسی اور فوری بحالی کے لئے دل و جان سے خدمت جاری رکھیں گے۔
ہماری کوشش ہے کہ شدید متاثرہ علاقوں میں خیمے، کھانے پینے کی اشیاء کے ساتھ ساتھ سیلاب کے بعد پیدا ہونے والی بیماریوں سے نمٹنے کے لئے ضروری دوائیاں اور طبی امداد بھی فراہم کی جائیں۔وزیراعلیٰ عبدالقدوس بزنجو کی قیادت میں صوبائی حکومت دن رات سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں سیلاب زدگان تک امداد کی رسائی اور فوری بحالی کے لئے کوششوں میں مصروف ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ساری دنیا جانتی ہے کہ پاکستان اس وقت مشکل دور سے گزر رہا ہے اور سیلاب سے بڑے پیمانے پر نقصانات کے ازالے کیلئے پاکستان کو بڑی رقم اور امدادی سامان کی ضرور ت ہے جس کے لئے عالمی برادری کو چاہئے کہ وہ پاکستان کی بڑھ چڑھ کر امداد کریں۔
تاکہ پاکستان میں تباہ کن بارشوں اور سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں زندگی دوبارہ بحال ہو سکے۔سینیٹر ثمینہ ممتاز زہری نے مزید کہا کہ موسمیاتی تبدیلیوں کا ذمہ دار پاکستان نہیں بلکہ ترقی یافتہ ممالک ہیں جبکہ پاکستان ماحولیاتی آلودگی سے براہ راست متاثر ہورہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ شدید موسمی تبدیلی ساری دنیا کے لئے بڑا چیلنج ہے لیکن پاکستان پراس تبدیلی کے منفی اثرات زیادہ پڑ رہے ہیں جس سے پاکستان اپنے طور پر نمٹ رہاہے۔ شدید موسمی تبدیلیوں کے چیلنجز سے تمام ممالک کو ملکر نمٹنا ہوگا۔قدرتی آفات کے آگے مزاحمت نہیں کی جاسکتی مگر موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کیلئے اقدامات ضرور کئے جاسکتے ہیں۔
موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کیلئے موثر اقدامات نہ کیے تو شاید آئندہ کا نقصان آج کے نقصان سے کہیں زیادہ ہوجس کا نہ تو پاکستان متحمل ہو سکتا ہے اور نہ ہی دنیا کا اور کوئی دوسرا ملک۔ انہوں نے عالمی برادری سے اپیل کی کہ پاکستان کی اس مشکل میں مدد کریں اور آگے آئیں۔
دنیاکو پاکستان میں سیلاب متاثرین کی بحالی تک تنہا نہیں چھوڑنا چاہیے۔انہوں نے کہا کہ ترقی یافتہ ممالک میں تیز رفتار صنعتی ترقی نے ماحولیات کو آلودہ کردیا ہے۔
صنعتوں کی وجہ سے آلودگی نے کرہ ارض کی حدت میں بڑی حد تک اضافہ کردیا ہے۔
گلیشیئرز تیزی سے پگھل رہے ہیں جس سے سیلاب آ رہے ہیں۔کرہ ارض میں پھیلنے والی اس آلودگی کا براہ راست اثرپاکستان پر پڑ رہا ہے جو کہ ایک سنجیدہ مسئلہ ہے اور اس آلودگی کے اثرات کے نتیجے میں پیدا ہونے والی صورتحال کا سامنا پاکستان کو بھی ہے حالانکہ اس ماحولیاتی آلودگی کا ذمہ دار پاکستان نہیں لیکن دوسرے ممالک کی پیدا کردہ آلودگی کا شکار ہے۔ا
نہوں نے متاثرین سیلاب کو یقین دلایا کہ بلوچستان کے تمام لوگ ہمارے اپنے ہیں اور ہم ان کو اس مشکل وقت میں اکیلا نہیں چھوڑیں گے اور جہاں تک ممکن ہو سکا متاثرہ علاقوں میں پاک آرمی، نیوی، فضائیہ اور سول انتظامیہ کے ساتھ مل کر امدادی سرگرمیاں جاری رکھیں گے۔
سینیٹر ثمینہ ممتاز زہری نے کہا کہ شدید بارشوں اور سیلاب سے بچنے کے لئے اب ہمیں سنجیدہ ہونا پڑے گا اور اوراس قدرتی آفت سیلاب سے بچنے کے لئے ہر قسم کے سیاسی اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر ڈیمز کی تعمیر کے لئے سنجیدہ کوششیں کرنی ہوں گی تاکہ ہماری آئندہ آنے والی نسلوں کو ان آفات کے اثرات سے بچایا جاسکے اور مستقبل میں متوقع شدید موسمی تبدیلی کی صورت میں سیلاب کی تباہ کاریوں سے محفوظ رہا جاسکے۔