ملک میں لاپتہ افراد کا مسئلہ گزشتہ دو دہائیوں سے چل رہا ہے اور یہ اپنی جگہ ابھی تک موجود ہے ، بلوچستان لاپتہ افراد کے حوالے سے سب سے زیادہ متاثر ہے اور سب سے زیادہ مسنگ پرسنز بھی بلوچستان کے ہیں جبکہ لاشیں بھی بلوچستان سے زیادہ برآمد ہوئی ہیں۔ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے حکومتوں نے متعدد بار یقین دہانی کرائی مگر اس کے باوجود بھی قابل ذکر تعداد میں لاپتہ افراد بازیاب نہیں ہوئے بلکہ بہت ہی کم افراد بازیاب ہوکر گھر پہنچے۔ اس حساس نوعیت کے معاملے کو سنجیدگی کے ساتھ حل کرنے کی ضرورت ہے۔ لاپتہ افراد کے اہل خانہ کی جانب سے عرصہ دراز سے احتجاج کیاجارہا ہے کیمپ قائم ہے بچے جوان ہوگئے مگر والد گھر واپس نہیں آسکا، بہنیں مائیں، بھائی سب اپنے پیاروں کی راہ تھک رہے ہیں کہ کب ان کا پیارا بازیاب ہوکر گھر لوٹ آئے گا اور آنگن میں خوشیاں آئینگی۔امید اور دلاسہ سے آگے بڑھ کر اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے اور اس کیس کو مستقل بنیادوں پر دیکھنا چاہئے ،سرسری بیانات اور تسلی سے یہ معاملہ حل نہیں ہوگا کیونکہ ماضی ہمارے سامنے ہے کہ محض بیانات تک گمشدگی کے مسئلے کو حل کرنے کی یقین دہانیاں کرائی گئیں مگر چند ماہ بعد مسئلہ سرد خانے کی نذر ہوگیا۔
البتہ اب ایک بار پھر یہ مسئلہ اٹھا ہے اور اس حوالے سے وفاقی حکومت نے لاپتہ افراد کی بازیابی اور لاشوں کی برآمدگی کو روکنے کے حوالے سے یقین دہانی کرائی ہے ۔گزشتہ روز جبری گمشدگی اور لاپتہ افراد کے حوالے سے قائم کابینہ کی ذیلی کمیٹی نے قائم کمیشن سے دس سالوں کی بالعموم اور چار سالوں کی بالخصوص تحریری کارکردگی رپورٹ طلب کی۔کمیشن سے تحریری رپورٹ وفاقی وزیر برائے قانون و انصاف سینیٹر اعظم نذیر تارڑ کی زیر صدارت منعقدہ کابینہ کی ذیلی کمیٹی کے اجلاس میں طلب کی گئی۔پاکستان مسلم لیگ (ن) سے تعلق رکھنے والے وفاقی وزیر قانون کی زیر صدارت منعقدہ اجلاس میں وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ، وفاقی وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی آغا حسن بلوچ، وفاقی وزیر برائے تخفیف غربت و سماجی تحفظ شازیہ عطا مری، جسٹس (ریٹائرڈ) فضل الرحمان اور جسٹس (ریٹائرڈ) ضیا پرویز نے شرکت کی۔اجلاس میں کمیشن کے سربراہ جسٹس (ریٹائرڈ) جاوید اقبال اور لاپتہ افراد کے متعلق قائم کمیشن کے اراکین شریک ہوئے اور رپورٹ پیش کی۔کابینہ کی ذیلی کمیٹی نے جسٹس (ریٹائرڈ) جاوید اقبال کو باضابطہ طور پر آگاہ کیا کہ تمام متاثرین جو ابھی تک کمیٹی کے سامنے پیش ہو چکے ہیں وہ کمیشن کی کارکردگی سے مطمئن نہیں ہیں۔منعقدہ اجلاس میں کمیٹی نے لاپتہ افراد کے بارے میں قائم کمیشن سے گزشتہ دس سالوں کی بالعموم اور گزشتہ چار سالوں کی بالخصوص تحریری رپورٹ بھی جمع کرانے کا کہا۔
لاپتہ افراد کے بارے میں قائم کمیشن میں پیش ہونے والی خواتین کو جنسی ہراسگی کا سامنا کرنے کے بارے میں سوال پر جسٹس (ریٹائرڈ) جاوید اقبال نے الزامات کی تردید کی۔جنسی ہراسگی کے الزامات کے بارے میں کارروائی آگے بڑھنے پر ان کیمرہ اجلاس بھی بلایا جائے گا۔البتہ جسٹس (ر)جاوید اقبال کی کارکردگی سب کے سامنے ہے کہ انہوں نے لاپتہ افراد کے مسئلے کو کس حد تک سنجیدگی سے لیا، ان پر بہت سارے سوالات اٹھ چکے ہیں انہوں نے کبھی بھی لاپتہ افراد اور ماورائے عدالت قتل پر کسی قسم کا نوٹس نہیں لیا محض کرسی پر براجمان ہوکر مراعات کے مزے لوٹتے رہے ،ان پر ہراسگی جیسی سنگین نوعیت کے الزامات بھی لگے جن سے وہ انکاری ہیں۔ بلوچستان کے لاپتہ افراد کے ساتھ انہوں نے کبھی بھی کوئی خاص میٹنگ نہیں کی اور نہ ہی ذاتی دلچسپی دکھائی ۔ بہرحال امید کرتے ہیں وفاقی حکومت بیانات سے آگے بڑھ کر عملی طور پر لاپتہ افراد اور ماورائے عدالت قتل کا مسئلہ حل کرے گی تاکہ گمشدہ افراد کے اہل خانہ میں موجود بے چینی کاخاتمہ ہوسکے۔