بلوچستان میں ترقی کے راستے بہت سارے ہیں ۔اپنے جغرافیہ ، ساحل اور معدنیات کے حوالے سے ملک کااہم خطہ ہے مگر اس کی ترقی کے حوالے سے ہر وقت صرف دعوے ہی کئے گئے عملاََ ترقی کے حوالے سے اقدامات نہیں اٹھائے گئے جس سے عام لوگوں کو فائدہ پہنچتا اور صوبہ خودکفیل ہوکر اپنا بجٹ تیا ر کرتا۔ بلوچستان میں میگامنصوبے چلنے کے باوجود بھی عام لوگ بنیادی سہولیات سے آج تک محروم ہیں اور ان محرومیوں اور پسماندگی سے سب ہی واقف ہیںلیکن اس کا ازالہ تاحال نہیں کیا گیاہے۔ سب سے بڑی ذمہ داری وفاق پر عائد ہوتی ہے کہ بلوچستان میں سرمایہ کاری کے حوالے سے سنجیدگی سے اقدامات اٹھائے ایسے روٹس بنائے جو اس خطے میں معاشی سرگرمیوں کا سبب بن سکیں اور صوبائی حکومت سمیت تمام اسٹیک ہولڈرز کو آن بارڈ لیتے ہوئے پالیسی مرتب کرے تاکہ اس پر اعتراضات نہ اٹھیں کیونکہ بلوچستان کی سیاسی جماعتوں کی جانب سے یہ شکوہ ہر وقت کیا جاتا ہے کہ بلوچستان کے وسائل سے کمپنیاں اور وفاق فائدہ اٹھاتی ہیں جبکہ ہمارے حصہ میں دھیلہ تک نہیں آتا، کچھ رقم ترقی کے نام پر دی جاتی ہے جن سے ایک منصوبہ بھی مکمل نہیں ہوسکتا جبکہ پنجاب اور سندھ اتنے خودکفیل ہیں کہ وہ اپنے منصوبے خودبناتے ہیں عوام کو سہولیات سمیت روزگار کے مواقع فراہم کرتے ہیں مگر بلوچستان کے ساتھ ناروا رویہ اختیار کیاجاتا ہے جس کی ایک طویل تاریخ ہے۔
بہرحال صوبائی قیادت اب اس حوالے سے سنجیدہ دکھائی دیتی ہے کہ بلوچستان کے مسائل کو کم کرنے کے لیے مشترکہ حکمت عملی بناتے ہوئے کام کرناہوگا۔گزشتہ روز چیف سیکرٹری بلوچستان عبدالعزیز عقیلی نے بلوچستان یونیورسٹی میں گورننس پر لیکچر دیتے ہوئے کہاکہ ایسی حکومت جو شرکت داری، اتفاق رائے، جوابدہی، شفافیت، منصفانہ ہو اور قانون کی عملداری جیسے خواص پر کاربند ہو، اچھی گورننس بدعنوانی کو کم کرتی ہے اور اس میں معاشرے کے کمزور طبقات کی آواز کو فیصلہ سازی میں حصہ دار بنایا جاتا ہے، جب کہ ملک کی موجودہ اور آئندہ ضروریات کو مد نظر رکھ کر اقدام کیا جاتا ہے۔ گڈ گورننس میں ملک کی ترقی کے لیے اچھی پالیسیز ہوں گی، ادارہ جاتی ڈھانچہ ہوگا، سٹیٹ میں قانون کی حکمرانی ہوگی۔ سٹیٹ، سوسائٹی اور حکومت کے درمیان باہم مربوط ورکنگ ریلیشن شپ ہو تواس سے معیشت پر مثبت اثرات پڑیں گے۔
صوبائی حکومت دستیاب وسائل میں رہتے ہوئے عوام کی فلاح وبہبود کے لیے اقدامات کررہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ رقبے کے لحاظ سے بلوچستان پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے اور آبادی کم ہے۔ بحیرہ عرب کے ساتھ ساتھ 750 کلو میٹر طویل ساحلی پٹی ہے۔ گوادر بندرگاہ اسٹریٹجک اور معاشی لحاظ سے نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ جس کے باعث صوبے کو جغرافیائی لحاظ سے ایک اہم مقام حاصل ہے۔ بلوچستان قدرتی وسائل سے مالامال صوبہ ہے۔اس کے علاوہ صوبہ میں ماہی گیری، سیاحت، لائیواسٹاک کے شعبوں میں بھی ترقی کے کافی روشن امکانات ہیں۔جو صوبائی اور قومی معیشت میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ معیاری تعلیم، انفراسٹرکچر، صحت و دیگر بنیادی سہولیات کی فراہمی صوبائی حکومت نے اپنی ترجیحات میں سرفہرست رکھا ہے۔اس مقصد کے لیے متعدد منصوبے شروع کئے ہیں جنکی تکمیل سے لوگوں کا معیار زندگی بلند ہوگا۔ صوبے میں سیاحت کے شعبے کو فروغ دینے کے لیے بہت سے ترقیاتی منصوبے زیر تعمیر ہیں۔
سیاحت کو فروغ دینے سے نہ صرف پائیدار ترقی کے اہداف کے حصول میں مدد ملے گی بلکہ غربت میں کمی کے ساتھ ساتھ روزگار کے مواقع بھی میسر آئیں گے۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں سیاحت کی صنعت کی ترقی صوبے اور اس کی آبادی کی مجموعی حالت کو بہتر بنانے میں معاون ثابت ہوسکتی ہے۔ اور ان منصوبوں کی تکمیل صوبے میں سیاحوں کو اس علاقے کی طرف راغب کریں گے اور مقامی آبادی کے لئے روزگار پیدا ہوگا جس سے صوبے میں غربت کی شرح بھی کم ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ صوبے میں معدنیات جیسے کوئلہ، کرومائیٹ، تانبا اور سونا کافی مقدار میں پایا جاتا ہے جو کہ ملکی جی ڈی پی میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ امید ہے کہ چیف سیکریٹری بلوچستان اس حوالے سے اپنا کردارادا کرینگے اور وزیراعلیٰ سمیت کابینہ دیگر اسٹیک ہولڈرز بھی اپنا حصہ ڈالیں گے تاکہ محرومیوں کا ازالہ ممکن ہوسکے۔