ملکی سیاست میں اس وقت آڈیو، ویڈیو لیکس کے ساتھ سائفر کا مسئلہ زیادہ طول پکڑتا جارہا ہے سیاسی حالات اس قدر کشیدہ ہوگئے ہیں کہ حساس نوعیت کے معاملات بھی کھل کر سامنے آرہے ہیں سائفر آڈیو لیک نے تو تہلکہ مچارکھا ہے کہ کس طرح سے ایک وزیراعظم سائفر کو توڑ مروڑ کر اسے خط کے ذریعے گمراہ کن پروپیگنڈہ بنا کر عوام میں پھیلایا اور باقاعدہ اس کے لیے میٹنگ بلائی گئی اور منٹس اپنے مطابق بناکر پیش کیا گیا ،سونے پہ سہاگا کہ عمران خان خود اسی آڈیو میں یہ بات باربار دہرارہے ہیں کہ امریکہ کا نام کسی نے نہیں لینا ہے بلکہ ایک غیرملکی سازش کا ذکر کرنا ہے جبکہ اسد عمر اسی آڈیو میں یہ فرماتے ہیں کہ سائفر اور خط میں فرق ہے ،عمران خان جواب میں یہ بتاتے ہیں کہ عام لوگوں کو سائفر کی سمجھ نہیں اس لیے ہمیں اسے خط کہہ دینگے ۔اتنا بڑا کھلواڑ ملکی سلامتی کے ساتھ کیا گیا محض اس لیے کہ ان کی حکومت جارہی تھی اور یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ سائفر کی کاپی پہلے راولپنڈی بھی گئی تھی جس کا تذکرہ عمران خان آڈیو میں کرتے ہیں کہ وہاں کیسے گئی؟
اس کے باوجود بھی انہوںنے اس ڈرامے کو طول دیا اور ایک بہت بڑاپروپیگنڈہ پلان مرتب کرکے عوام کے اندر انتشار پھیلانے کی کوشش کی اور اب بھی اسی سائفر کے ڈرامے کو لیکر اپنے سیاسی بیانیہ کو لیکر عوام کے سامنے دروغ گوئی سے کام لے رہے ہیں ،روز ایک تماشاکرکے عوام کو اُکسا کر مارچ کے اعلان کی بات کرتے ہیں پھر اسے مؤخر کرکے اگلے جلسے میں تاریخ کا اعلان کرنے کا کہتے ہیں مگر تاریخ پر تاریخ دینے کے باوجود عمران خان مارچ کی طرف نہیں جارہے ۔ دوسرا بڑا المیہ یہ ہے کہ گورنمنٹ انسٹی ٹیوٹس کو اپنی سیاست کے لیے استعمال کررہے ہیں تعلیمی اداروں میں سیاسی لیکچر ،ملکی سیاست پر بات کرنا کوئی بری بات نہیں کیونکہ تعلیمی اداروں کے اندر سیاسی شعور طلباء وطالبات کو دینا اچھی بات ہے تاکہ مستقبل کی سیاست ،تاریخ سے آشنا ہوسکیں مگر عمران خان پنجاب اور کے پی کے کے بڑے تعلیمی اداروں میں سائفر کے سازشی بیانیہ کے ذریعے طالبعلموں کو گمراہ کررہے ہیں یقینا اس کے پیچھے پنجاب اور کے پی کے کی حکومتیں ہیں کیونکہ یہاں عمران خان کے جماعت کی حکومت ہے مگر انسٹی ٹیوٹس کے ذمہ داران وانتظامیہ کس کھاتے میں عمران خان کو یہ سہولیات فراہم کررہے ہیں اگر انہیں پی ٹی آئی کے لیے سیاست کرنی ہے تو اپنے عہدوںسے مستعفی ہوکر باقاعدہ پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کرتے ہوئے سیاست کریں ناکہ تعلیمی اداروں کو اپنے سیاسی مقاصد حاصل کرنے کے لیے استعمال کریں یاپھر کسی کے دباؤ میں آکر وہ یہ سب کچھ کررہے ہیں تو اس حوالے سے بھی ان کے پاس اختیارات موجود ہیں کہ وہ انکار کریں اور وفاقی حکومت کواس حوالے سے اپنی شکایات سے آگاہ کریں مگر ایسا کچھ نہیں کیا گیا بلکہ عمران خان کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے تالیاں بجاتے دکھائی دے رہے ہیں۔
اور یہ انکشاف بھی سامنے آیا ہے کہ طالبعلموں کو باقاعدہ دھمکی دی گئی تھی کہ اگر وہ عمران خان کی تقریب میں شرکت نہیں کرینگے تو انہیں کلاس میں بیٹھنے کی اجازت نہیں دی جائے گی اس قدر بلیک میلنگ اور گندی سیاست کی جارہی ہے کہ جس کی نظیر تاریخ میں نہیں ملتی ۔ عمران خان جس خوش فہمی میں مبتلا ہوکر یہ تمام سیاسی کھیل رچارہے ہیں انہیں یہ ضرور علم ہونا چاہئے کہ ان کے لیے راستے بندہوتے جارہے ہیں اور بند گلی میں ان کی سیاست داخل ہوتی جارہی ہے جس طرح کے سنگین ترین الزامات لگارہے ہیں اس حوالے سے ان کی گرفتاری کے بھی امکانات موجود ہیں اور عمران خان کسی طرح بھی خطرناک نہیں ہونگے پہلے بھی عمران خان جوش خطابت مارتے ہوئے یہ دکھائی دیتے رہے ہیں کہ وہ حکومت سے باہر آئینگے تو اور زیادہ خطرناک ہوجائینگے مگرماسوائے پروپیگنڈہ کرنے کے کسی طرح اپنے مخالفین کے لیے خطرہ نہیں بنے البتہ اپنے انہی سیاسی اعمال کی وجہ سے ملک کے لیے سیکیورٹی رسک بن چکے ہیں۔