|

وقتِ اشاعت :   December 21 – 2015

عوام الناس نے رینجرز کے آپریشن کی حمایت صرف اس لئے کی تھی کہ کراچی میں صرف اور صرف لوٹ مار کے لئے انارکی پھیلائی گئی۔ لوٹ مار، قتل وغارت گری کا نشانہ غریب عوام تھے۔ حکمرانوں کے کارندے لوٹ مار کررہے تھے، قتل اور اغواء برائے تاوان میں ملوث تھے۔ اس کی مثال ڈاکوؤں، لٹیروں، رسہ گیروں اور جرائم پیشہ افراد کو بعض سیاسی رہنماؤں کی حمایت حاصل تھی۔ بلکہ سندھ کے سابق وزیر داخلہ ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کے تعلقات جرائم پیشہ افراد سے پوشیدہ نہیں تھے۔ وہ ان کے جلسوں اور جلوسوں میں شرکت کرتے تھے اور ان کی منشا کے مطابق فوج کے سربراہ کی حمایت میں جلوس امریکی سفارت خانے تک لے گئے اس کے لئے 50 ہزار افراد کا اجتماع کیا گیا۔ اس کی مالی ضروریات کو پورابھی انہی حکمرانوں کے حواریوں نے کی۔ رینجرز کا کام صرف جرائم کو روکنا، امن عامہ برقرار رکھنا تھا۔ اس لئے عوام الناس نے اس کو خوش آمدید کیا۔ ڈاکٹر ذوالفقار مرزا نے پی پی پی کے سیاسی گڑھ کو مرکزی قیادت کی مرضی اور منشاء سے جرائم پیشہ افراد کے حوالے کیا۔ آج دن تک پی پی پی اس جرم کی سزا بھگت رہی ہے۔ انہی جرائم پیشہ افراد نے لوگوں کو پی پی پی کے جلسہ اور جلوس میں شامل ہونے سے روکنے کے لئے انتظامیہ کا ساتھ دیا۔ بلاول بھٹو کے جلسے میں لیاری سے کم لوگ گئے کیونکہ ان کو بندوق کی نوک پر یرغمال بنایاگیا تھا۔ وہ بھی پی پی پی کے اپنے من پسند افراد تھے۔ اتنی طویل مدت گزر گئی چند ایک جرائم پیشہ افراد کی سرکوبی مکمل طور پر نہیں کی گئی۔ ان کی طاقتور موجودگی کا احساس عوام الناس میں پایا جاتا ہے بلکہ نابالغ جرائم پیشہ افراد چوری اور ڈاکہ ڈال کر گزارا کررہے ہیں اور ان کی سرپرستی وہی افراد کررہے ہیں جنہوں نے نئے لوگوں کو بھرتی کیا اور بندوق ان کے حوالے کی۔ شایدان کی موجودگی کا کچھ عناصر سیاسی طور پر فائدہ حاصل کرنا چاہتے ہیں اور وہ عوام کی خدمت نہیں کرنا چاہتے بلکہ اپنے کمزور مفادات کا تحفظ چاہتے ہیں۔ دوسری طرف بعض قوتیں کھلم کھلا اقتدار میں شرکت چاہتی ہیں بلکہ سیاسی نظام کو بالائے طاق رکھ کر انتظامیہ پر قبضہ نہیں تو کنٹرول ضرور چاہتے ہیں۔ ایسے حلقوں سے گزارش ہے کہ وہ وسیع تر قومی مفاد کا خیال رکھیں اور سندھ پر رحم کریں۔ سندھ پر بہت مظالم ڈھائے گئے۔ پاکستان کے قیام کے وقت بھارت سے 80 لاکھ مسلمانوں کا بوجھ صرف سندھ نے سنبھالا اور ان سب کو نہ صرف پناہ دی بلکہ مستقل طور پر آباد اور خوشحال بھی بنایا اور وہ اقتدار پر قابض رہے۔ اس کے بعد صنعتی انقلاب کے بہانے دوسرے 80 لاکھ افراد پنجاب اور کے پی کے سے سندھ آئے اور وہ بھی یہیں بس گئے۔ افغان خانہ جنگی میں بھی 10 لاکھ سے زیادہ افغانی سندھ آئے، لاکھوں بنگالیوں اور برمی باشندوں کو سندھ میں آباد کرنے کا کام کھلم کھلا کیا گیا۔ واحد مقصد سندھ کو تباہ کرنا تھا، اس کی آبادی کے تناسب کو تبدیل کرنا تھا سندھیوں کو اپنی ہی سرزمین پر اقلیت میں تبدیل کرنا تھا۔ سندھ پاکستان کی ایک اہم ترین اکائی ہے، ہم پر فرض ہے کہ سندھ پر ہر طرح کے دباؤ کو کم کریں۔ ہر باہر سے آنے والوں نے سندھ کو بے دردی سے لوٹا۔ ان کی دیکھا دیکھی سندھ کے وڈیروں نے بھی ہاتھ دکھانے شروع کئے۔ اتنے طویل دورانیے میں ان کے خلاف کارروائی نہیں ہوئی کیونکہ وہ مقتدرہ کے حمایتی تھے، آج وہ کچھ نہیں ہیں۔ شک یہ پڑتا ہے کہ کارروائی کی بنیاد سیاسی ہے ورنہ ہر افسر لکھ پتی، کروڑ پتی اور ارب پتی بن کر سندھ سے گیا لہٰذا پہلے تو مقتدرہ کے حامی کرپٹ لوگوں کے خلاف کارروائی ہو تاکہ یہ شبہہ نہ رہے کہ یہ کارروائی صرف سندھ اور اس کی حکومت کے خلاف ہے۔ اس سلسلے میں سندھ کو وفاقی اکائی تسلیم کیا جائے اور سندھ حکومت کو ہی ان عناصرف کے خلاف کارروائی کرنے پر مجبور کیا جائے۔ سندھ پولیس کو استعمال کیا جائے۔ رینجرز اس کی حمایت میں رہے اور ہر مقدمے کی پیروی سندھ حکومت کرے۔ رینجرز ہر اول دستے کا کام نہ کریں تاکہ سندھ اور وفاق کے درمیان تنازعہ کا تصور نہ رہے۔ فائدہ صرف عوام کو ملنا چاہئے مفادات پرستوں کو نہیں۔