پاکستان میں سیلاب کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال پر جس طرح سے اقوام متحدہ متحرک دکھائی دے رہی ہے یہ امرانتہائی قابل ستائش ہے کہ مسلسل اقوام متحدہ پاکستان کی صورتحال کا جائزہ لے رہی ہے اور امداد کے حوالے سے ذاتی طورپر دلچسپی لیتے ہوئے عالمی دنیا کی توجہ اس خطرناک صورتحال کی جانب مبذول کرارہی ہے،امید سے بڑھ کر اقوام متحدہ موجودہ بحرانی کیفیت میں پاکستان کے لیے کام کررہی ہے اور اس کے نتائج بہت مثبت آرہے ہیں۔
پاکستان کو عالمی سطح پر فنڈز مل رہے ہیں جبکہ مزید اب اقوام متحدہ نے پاکستان میں سیلاب کے بعد غربت اور ملیریا کیسز میں اضافے کے خدشات ظاہر کرتے ہوئے عالمی برادری سے امداد کی نئی اپیل کردی ہے۔
اقوام متحدہ کے ریذیڈنٹ کوآرڈی نیٹر جولیان ہارنیس نے منعقدہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بتائی۔ اس موقع پر ورلڈ فوڈ آرگنائزیشن کے نمائندے بھی موجود تھے۔جولیان ہارنیس نے کہا کہ پاکستان میں سیلاب سے بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی ہے، پاکستان کے لیے امداد میں اضافہ کردیا گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ نے پاکستان کے لیے امداد 180 ملین ڈالرز سے بڑھا کر 816 ملین ڈالرز کرنے کی نئی اپیل کردی ہے۔
اقوام متحدہ کے ریذیڈنٹ کو آرڈی نیٹر نے کہا کہ ڈبلیو ایچ او نے جنوری تک 27 لاکھ ملیریا کیسز بڑھنے کا خدشہ ظاہرکیا ہے جب کہ سیلاب زدہ علاقوں میں ملیریا کیسز بڑھنے سے اموات بڑھنے کے بھی خدشات ہیں۔جولیان ہارنیس نے متنبہ کرتے ہوئے کہا کہ سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں بچے شدید غذائی کمی کا شکار ہوسکتے ہیں اور غذائی کمی کے باعث بچوں کی اموات کے خدشات ہیں۔
انہوں نے واضح کیا کہ صحت،غذائیت اور پینے کے صاف پانی کی مناسب فنڈنگ نہیں ہو پائی، پاکستان میں سیلاب کے باعث غربت بڑھنے کا خدشہ ہے۔اس موقع پر موجود ورلڈ فوڈ آرگنائزیشن کے نمائندے نے بتایا کہ پاکستان میں زیر کاشت 9.4 ملین ایکڑ رقبہ تباہ ہوا ہے، سیلاب کے بعد اب آنے والے دنوں میں مسئلہ فوڈ سیکیورٹی کا ہو گا۔
ورلڈ فوڈ آرگنائزیشن کے نمائندے نے کہا کہ سیلاب کے باعث کاٹن اور گنے سمیت دیگر فصلیں تباہ ہو گئی ہیں، کسانوں کے بیج خراب ہو گئے ہیں اور نتیجتاً مشکلات بڑھ گئی ہیں۔اس وقت پاکستان میں سیلاب متاثرہ علاقوں کی صورتحال بہت زیادہ خراب ہے ایک تو لوگ بے گھر ہوگئے ہیں ان کا سب کچھ ختم ہوکر رہ گیا ہے بڑے بڑے زمیندار سڑک پر آگئے ہیں جبکہ غریب کی حالت مزید ابتر ہوگئی ہے،جینا محال ہوگیا ہے بدترین حالات میں رہنے اور وبائی امراض کے حملوں نے متاثرین کی زندگی کو مشکل میں ڈال دیا ہے اس لیے بار بار اہم مسئلے پر توجہ مبذول کرائی جارہی ہے کہ دنیا کو پاکستان کے سیلاب متاثرین کی پڑی ہے کہ کس طرح سے ان کی زندگیاں بچائی جائیں
اور دوبارہ ان کی بحالی کے لیے تیزی کے ساتھ کام شروع کیاجائے مگر صدافسوس کہ ریاست مدینہ کے دعویدار پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان کی جانب سے سیاست ایک ایسے وقت میں کی جارہی ہے جس دوران لوگ زندگیوں سے ہاتھ دھورہے ہیں، کبھی سائفر کا ڈرامہ رچاتے ہیں تو کبھی عوام کو گمراہ کرکے زہریلا پروپیگنڈہ کرتے دکھائی دیتے ہیں، آڈیو لیکس پر خود ہی موصوف کہتے تھے کہ اچھی بات ہے کہ ہماری سیکیورٹی کے لیے یہ ہوتا ہے اب عدالت جارہے ہیں توکس منہ سے اعلیٰ عدلیہ کا دروازہ کھٹکھٹانے جارہے ہیں جبکہ خود ایک نجی ٹی وی کے انٹرویو میں کہہ رہے ہیں
کہ میرا فون ٹیپ ریکارڈ ہورہا ہے مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا میں کوئی غلط کام نہیں کررہا مگر جب آڈیولیکس ہونا شروع ہوگئیں تو ریاست کے مدینہ صادق وامین کا اراکین اسمبلی کی خرید وفروخت کا کیس سامنے آیا ہے اس لیے اب ڈپریشن اور فرسٹریشن کے شکار عمران خان لوگوں کو اُکساکر اسلام آباد لانے کی بات کررہے ہیں کیونکہ موصوف کو صرف اپنی شہنشاہیت چاہئے،اس کے علاوہ انہیں عوام اور ملک سے کوئی غرض نہیں جس کی واضح مثال حالیہ سیلاب سے پیدا ہونے والی صورتحال میں ان کا واضح کردار ہے۔