کوئٹہ: بلوچ ری پبلکن پارٹی کے مرکزی ترجمان شیرمحمد بگٹی نے ثنااللہ زہری کے حالیہ بیان پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ ریاستی نمائندوں اور بلوچستان میں حکومت کے عہدیداروں کی طرف سے بی آر پی کے صدر اور بلوچ قومی رہنما نواب براہمداغ بگٹی کے ساتھ مزاکرات کی باتوں میں کوئی صداقت نہیں ہے۔ انھوں نے کہا کہ ہمارا موقف ہمیشہ سے واضح رہا ہے کہ بحیثیت ایک سیاسی جماعت کے بی آر پی پرامن اور سیاسی جدوجہد پر یقین رکھتی ہے اور ہم نے کبھی بھی بات چیت کے ذریعے مسائل کو حل کرنے سے انکار نہیں کیا۔ بی آر پی بلوچ قومی مسئلے کے حوالے سے جو بھی موقف رکھتی ہے اور اس پر جو بھی پیشرفت ہوتی ہے اس پر بلوچ قوم کو ا?گاہ کرتی آرہی ہے جس کی واضح مثال یہ ہے کہ ریاستی نمائندوں سے ملاقات اور اس کی تفصیلات کو من و عن بلوچ قوم کے سامنے پیش کیا گیا حالانکہ اگر بی آر پی قیادت چاہتی تو ان چیزوں کو خفیہ رکھ سکتی تھی لیکن بی آر پی بلوچ قوم کی حقیقی نمائندگی کرتی ہے اور قوم کو تمام صورتحال سے باخبر رکھنا اپنا فرض سجمھتی ہے۔ انھوں نے کہا کہ رواں سال ڈاکٹر مالک بلوچ اور جنرل ریٹائرڈ عبدلقادر بلوچ کے ساتھ ملاقات میں بھی بی آر پی قیادت نے ان پر واضح کردیا تھا کہ نام نہاد صوبائی حکومت کے ہاتھ میں بلوچستان کے معاملات پر کوئی اختیار حاصل نہیں ہے جس کا انھوں نے خود بھی اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ وہ صرف پیغامات رسانی کا کام کررہے ہیں۔ شیرمحمد بگٹی نے کہا کہ ہم اس بات کی وضاحت ایک بار پھر ضروری سمجھتے ہیں کہ ریاستی کی جانب سے بلوچ ا?زادی پسند جماعتوں اور رہنماوں سے مزاکرات کا اعلان کرنا ریاستی حکمت عملی کا حصہ ہے جس کے ذریعے وہ مقامی اور بین الاقوامی سطح پر ا?زادی پسند بلوچ جماعتوں اور رہنماوں کو دہشت گرد ظاہر کرکے بلوچ تحریک کی سیاسی حمایت کو کاونٹر کرنا چاہتی ہے۔ جہاں تک حقیقی مزاکرات یا بات چیت کا سوال ہے تو وہ فورسز کی روایتی انداز میں بلوچستان کے طول و عرض گن شپ ہیلی کاپٹروں اور ملٹری ا?پریشن کی صورت میں جاری ہیں۔ اگر ثنااللہ زہری صاحب کا مقصد ان مزاکرات کو آگے لیکر چلنا ہے تو یہ کوئی نئی بات نہیں ہے، یہ تو پچھلے ایک دہائی سے چلے آرہے ہیں لیکن اگر ان کا مقصد سیاسی بات چیت کے مسائل کا حل نکالنا ہے تو یہ صرف اپنا مزاق اڑانے کے مترادف ہے کیونکہ بلوچستان میں جو بھی حکومت بنتی ہے اس کا کام صرف سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کے اشاروں پر چلنا ہے۔ اس سے زیادہ ان کے ہاتھ میں کچھ نہیں ہے۔ انھوں نے کہا کہ ریاست بلوچوں کے ساتھ مزکرات کا اعلان کرکے پھنس گئی ہے کیونکہ ان کا خیال تھا کہ ہماری طرف سے انکار کی صورت میں وہ بین الاقوامی سطح پر بلوچستان میں آپریشن اور جارحیت کو دہشت گردوں کے خلاف ا?پریشن کا نام دیکر اسے جواز فراہم کرسکے جس میں وہ بری طرح ناکام ہوچکی ہے۔ شیرمحمد بگٹی نے کہا کہ بی ا?ر پی مزاکرات اور سیاسی بات چیت کے ذریعے ہی مسائل کے حل پر یقین رکھتی ہے۔ ہمیں کسی کے ساتھ بیٹھنے یا حال احوال کرنے پر کوئی اعتراض نہیں ہے لیکن جہاں تک بلوچ قومی مسئلے کے حل کا سوال ہے تو بلوچستان کی صوبائی حکومت اور اس کے عہدیداروں کے اختیار میں کچھ نہیں ہے۔