یہ لڑکوں کی شوقیہ فٹبال ٹیم کی ایک پرانی اور غیر مبہم تصویر ہے، جو گزرے وقتوں میں شاید دنیا کے کسی بھی کونے میں آسانی سے دستیاب تھی لیکن تین دہائیوں بعد شام کے شمال مغرب میں ان کا چھوٹا سا گاؤں اب جنگ کی لپیٹ میں ہے۔
اب ان 13 نوجوان لڑکوں کا کیا بنا؟ جب میں نے پہلی بار تصویر دیکھی تو میں اُس کی ایک جھلک دیکھ کر ہی مسحور رہ گیا تھا۔ یہ ٹیم کی ایک بڑی سی تصویر تھی جس میں کھلاڑی ہرے اور سفید رنگ کے لباس میں ملبوس تھے۔ کھلاڑیوں کے گھنے بال اور مونچھیں دیکھنے والوں کو ایک دم سے 1980 کی دہائی کی یاد دلا دیتے ہیں۔ اب اِس تصویر کو تقریباً 30 سال گزر چکے ہیں اور ہم حالت جنگ میں ہیں۔ تو میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ اِن لڑکوں کے ساتھ کیا ہوا۔ یہ تصویر شامی شہر حلب کے شمال میں واقع مارعہ نامی ایک چھوٹے سے قصبے کے کنارے قائم سپورٹس کمپلیکس میں لی گئی تھی۔ یہ سنہ 2012 کے اختتامی دنوں کی بات ہے، میں بشار الاسد کے خلاف شروع والی بغاوت کی رپورٹنگ کرنے کے لیے وہاں موجود تھا۔ مارعہ میں باغیوں کا قبضہ تھا اور حکومتی جنگی جہاز وہاں بمباری کر رہے تھے۔ اُس دوران میں نے سپورٹس کمپلیکس میں پناہ لی تھی، میرے میزبان مقامی صحافی یاسر الحاجی کا کہنا تھا کہ شہر کے وسطی علاقوں کی نسبت یہ علاقہ اُن کا ہدف نہیں ہو گا۔ بعد میں مجھے پتہ چلا کہ اُس تصویر میں یاسر خود بھی موجود تھے۔ وہ اِس ٹیم کے بانی، کپتان اور کوچ بھی تھے۔ انھوں نے مجھے فخر سے بتایا کہ جب یہ تصویر لی گئی تھی اس وقت ان کی ٹیم بہترین اور ناقابل شکست تھی۔ انھوں نے بڑی بڑی نامور ٹیموں کو شکست کی دھول چٹائی تھی۔ یاسر نے بتایا: ’مجھے اِس تصویر کو دیکھنے سے تکلیف ہوتی ہے، اِس بارے میں میرے جذبات خاصے متضاد ہیں کہ ہم نے کیا کیا تھا اور ہمارے ساتھ کیا ہو گیا۔‘ تین سال قبل یاسر نے مجھے صرف اتنا بتایا تھا کہ جنگ نے انھیں جدا کر دیا۔ لیکن اب میں نے ان کی اور کئی بین الاقوامی فون کالوں کی مدد سے ان کی کہانی کو یکجا کیا ہے۔ اِس تصویر میں بسام (پچھلی قطار، بائیں جانب سے دوسرے) تھے، وہ ٹیم کے گول کیپر، سنجیدہ اور محنتی کھلاڑی تھے۔ ان کا خواب تھا کہ وہ پیشہ ور کھلاڑی بنیں۔ اِسی تصویر میں النجار بھی تھے، دوست ان کو خوشبوؤں کا شخص (پیچھے، دائیں جانب سے دوسرے) کہہ کر پکارتے تھے۔ اس کے بعد رعید (پہلی صف، دائیں جانب سے تیسرے)، عبدالرحیم (پیچھے کی جانب درمیان میں) اور محمد الفرح (پچھلی صف میں، بائیں جانب سے تیسرے) بھی تھے۔ لیکن اِس کے پیچھے افسردگی بھی ہے اور آپ اِس کو تصویر میں بھی محسوس کر سکتے ہیں۔ رعید النجار نے ماضی کو یاد کرتے ہوئے بتایا ’اس وقت صورت حال کافی کشیدہ تھی، نوجوان لڑکوں کے لیے سانس لینے کا واحد ذریعہ کھیل تھا۔ یہ تصویر سنہ 1982 میں حما میں ہونے والے قتل عام کے فوراً بعد لی گئی تھی جب بشار الاسد کے والد اور اُس وقت کے صدر حافظ الاسد کی حکومت نے اسلامی بغاوت کو روکنے کے لیے ممکنہ طور پر کم سے کم 10 ہزار افراد کو قتل کر دیا تھا۔ اِس بات کا غالب امکان ہے کہ اس وقت قتل ہونے والوں کی اصل تعداد اس سے کافی زیادہ تھی۔ رعید کے والد جن کا تعلق مخالف سیاسی جماعت سے تھا، انھیں خفیہ پولیس کے اہلکاروں نے گرفتار کر کے غائب کردیا تھا۔ اس وقت رعید صرف دس برس کے تھے اور اپنے والد کو وہ پھر کبھی نہیں دیکھ سکے۔ جیل میں موجود والد کی بات کے ساتھ رعید کو ایک اچھی نوکری ملنا ناممکن تھا اور جب وہ 24 سال کے ہوئے تو روس چلے گئے جہاں وہ ایک کامیاب کاروباری شخصیت بن گئے۔ سنہ 1990 کی دہائی میں سیاسی مسائل کی وجہ سے یاسر کو بھی شام چھوڑنا پڑا۔ پہلے وہ جرمنی اور پھر وہاں سے امریکہ چلے گئے۔ یاسر سنہ 2011 میں شام حکومت کے خلاف پہلے احتجاج میں شریک ہونے کے لیے واپس اپنے علاقے مارعہ آگئے۔ چند مہینوں بعد رعید بھی وہاں پہنچ گئے۔ سرکاری فوج کو علاقہ چھوڑنا پڑا اور یاسر اور رعید کو اپنے مشترکہ خواب یعنی مارعہ میں بچوں کے لیے کھیل کا میدان بنانے کا موقع ملا۔ یہ وہی میدان ہے جہاں بعد میں ہم نے پناہ لی تھی اور یہی ٹیم کی تصویر دیکھی تھی۔ جس دن اِس میدان کا افتتاح ہوا، انھوں نے تمام کھلاڑیوں کو اکٹھا کیا اور دوبارہ سے مل کر کھیلے۔ رعید نے ماضی کو یاد کرتے ہوئے کہا: ’وہ میری زندگی کا سب سے خوشی کا دن تھا، یہ بالکل ایسا ہی تھے جیسے ہم دوبارہ سے پیدا ہوئے ہوں لیکن یہ اختتام نہیں تھا، کیونکہ شیطان آگیا تھا، جنگ کا شیطان۔‘ حکومت مسلسل مارعہ پر بمباری کر رہی ہے اور سپورٹس کمپلکس کی دیواریں بھی گولیوں اور بماری کے باعث ٹوٹ گئی ہیں۔ رعید واپس روس جا چکے ہیں اور محمد الفرح بھی سنہ 2012 کے اوائل میں اپنے خاندان کے ہمراہ ترکی کے پناہ گزین کیمپ میں پناہ لے چکے ہیں۔ حالات سے تنگ آ کر ٹیم کے ایک اور پرانے کھلاڑی حسین الخطیب بھی اپنے خاندان سمیت ترکی میں ہیں۔ ایک اور کھلاڑی عبدالرحیم فری سیریئن آرمی کے ساتھ مل کر بشار الاسد کے خلاف جنگ میں شریک ہیں۔ سب سے حیرت کی بات یہ ہے کہ یاسر کی بہن کے شوہر اور ٹیم کے سابق گول کیپر بسام جمیل ایک کامیاب تاجر ہیں۔ وہ مقامی کاشت کاروں سے گندم، اناج، پھلیاں، آلو اور دیگر چیزیں لے کر فروخت کرتے ہیں۔ انھوں نے مارعہ سے فون پر بات کرتے ہوئے مجھے بتایا: ’ہم ہر کسی کے ساتھ کاروبار کرتے ہیں، ہم حکومت، کردوں، دولتِ اسلامیہ سب کو سامان فروخت کرتے ہیں۔‘ جب ہم بات کر رہے تھے، اچانک اُنھوں نے مجھے بتایا کہ دوبارہ سے بمباری شروع ہوگئی ہے اور اِس بار روس کے جہاز یہ کام کر رہے ہیں۔ جنگ میں روس کی شمولیت کے باعث مارعہ کے علاقے میں شہریوں کی زندگی مزید مشکل ہوگئی ہے۔ محمد النجار انقلاب سے قبل مارعہ کے میئر بن گئے تھے اور مجھے حیرانی اِس پر ہوئی کہ ان کا کہنا ہے کہ وہ اب بھی اِس علاقے کے میئر ہیں جبکہ کئی سالوں سے اِس علاقے پر باغیوں کا قبضہ ہے۔ اِس طرح کی تقسیم کے بعد مجھے نہیں لگتا کہ اب یہ لوگ دوبارہ اکٹھا ہو پائیں گے اور کبھی ایک ساتھ کھیل بھی سکیں گے۔ جب میں نے اپنی تلاش کا آغاز کیا تو میں پریشان تھا کہ اِن میں سے کچھ جنگ میں مارے نہ گئے ہوں لیکن خوش قسمتی ہے سب حیات ہیں اور زیادہ تر شام میں ہی رہائش پذیر ہیں۔ کچھ باغیوں اور کچھ سرکار کے زیر اثر علاقوں میں ہیں۔ یاسر آج کل ترکی میں رہائش پذیر ہیں اور جو صحافی شام جانا چاہتے ہیں وہ ان کی مدد کرتے ہیں۔ محمد الفرح جنھوں نے شامی فضائیہ میں میجر کے عہدے پر کام کیا ہے، اب پناہ گزینوں کے کیمپ میں نرسری سکول چلاتے ہیں۔ لیکن وہ اِن بچوں کے سوالوں کا جوب نہیں دے پاتے۔ ایک اور بچے نے سوال کیا جس نے جنگ میں اپنے والد کو کھو دیا تھا: اگر میں واپس گھر چلا جاؤں تو کیا میرے والد میرا انتظار کر رہے ہوں گے؟ کیا اُنھوں میرے لیے وہ تحفہ خرید لیا ہوگا جس کا اُنھوں نے وعدہ کیا تھا؟ اِس طرح کے سوالات مجھے غمگین کر دیتے ہیں، مجھے نہیں معلوم کہ اِن سوالوں کا جواب کیسے دیا جائے۔شام کی گمشدہ فٹبال ٹیم کی تلاش
وقتِ اشاعت : January 2 – 2016