لاہور: صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں اجتماعی زیادتی کا شکار بننے والی والی لڑکی نے پولیس اور پراسیکیوشن کی جانب سے دباؤ کے باعث خودکشی کرنے کی کوشش کی تاہم اُس کی زندگی بروقت بچالی گئی۔
متاثرہ لڑکی کے بہنوئی زین نے ڈان سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ اُس کی سالی نے دباؤ کے باعث چھت سے چھلانگ لگا کر زندگی کا خاتمہ کرنے کی کوشش کی۔
تاہم گھر والوں کی اس کی اس کوشش کو ناکام بناتے ہوئے اُسے فوری طور پر سروسز ہسپتال منتقل کیا جہاں بروقت طبی امداد ملنے کی وجہ سے اُس کی زندگی بچ گئی۔
زین نے اپنی سالی کی خودکشی کی کوشش کی وجہ بتاتے ہوئے کہا کہ اس کی سالی نے انتہائی قدم تفتیش کے دوران پولیس کی جانب سے ہراساں کیے جانے اور غیر ضروری سوالوں کی وجہ سے اٹھایا۔
دوسری جانب متاثرہ لڑکی کے اہلخانہ نے چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ سے واقعے کا ازخود نوٹس لینے کی درخواست کردی ہے۔
درخواست میں کہا گیا ہے کہ حکومت اور پولیس کی جانب سے ان پر دباؤ ڈالا جارہا ہے، جبکہ تفتیشی افسر ملزمان کو تحفظ دینےکی کوشش کر رہےہیں، اس کے علاوہ لڑکی پر بیان بدلنے کے لیے بھی دباؤ ڈالا جارہا ہے۔
قبل ازیں متاثرہ لڑکی کی بہن نے ڈان کو بتایا تھا کہ پولیس ان کے گھر والوں پر کیس کے مرکزی ملزم عدنان ثنا اللہ کا نام خارج کرانے کے لیے دباؤ ڈٓال رہی ہے۔
واضح رہے کہ تقریباً ایک ہفتہ قبل ملتان روڈ کی رہائشی 15 سالہ لڑکی کو 10 افراد نے اغوا کے بعد لاہور کے علاقے مال روڈ کے قریب ایک ہوٹل میں مبینہ طور پر گینگ ریپ کا نشانہ بنایا تھا۔
واقعے کے اگلے روز 6 مبینہ ملزمان عبد الماجد، محمد عمر، امیر احمد، حارث، بلاول اور زمان کو گرفتار کرلیے گئے، جبکہ مرکزی ملزم میاں عدنان ثنا اللہ، جو کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے یوتھ ونگ کا ایڈیشنل سیکریٹری جنرل بھی ہے، اور ہوٹل مینیجر عمران کو دو روز بعد گرفتار کیا گیا۔
پولیس کا کہنا تھا کہ لڑکی کو مبینہ طور پر نشہ آور مشروب بھی پلایاگیا جبکہ ابتدائی طبی معائنے میں لڑکی کے ریپ کی تصدیق ہوئی۔
متاثرہ لڑکی کو تشویشناک حالت میں لاہور کے سروسز ہسپتال منتقل کیا گیا تھا۔