|

وقتِ اشاعت :   January 3 – 2016

کوئٹہ:  سابق وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر مالک بلوچ نے کہا ہے کہ براہمدغ بگٹی سے جنیوا میں ایک سے زیادہ بار ملاقات کی ڈاکٹر اللہ نذر سے براہ راست تو رابطہ نہیں ہے تاہم مشترکہ دوستوں کے ذریعے انہیں پیغام دیا تھا کہ اکیسویں صدی میں لڑنے کی بجائے جمہوری جدوجہد کریں براہمدغ بگٹی سے مذاکرات کے معاملے میں وزیراعظم میاں محمد نواز شریف اور آرمی چیف جنرل راحیل شریف کو آگاہ کیا تھاحکومت اور براہمدغ بگٹی کے درمیان صلح کے امکانات زیادہ ہیں۔ یہ بات انہوں نے ہفتہ کو نجی ٹی سے بات چیت کرتے ہوئے کہی ۔ڈاکٹر مالک بلوچ نے کہا کہ جب وزرات اعلیٰ سنبھالی تو وقت میرے لئے انتہائی مشکل تھا کمٹمنٹ ایمانداری سے کام لیا اور کرپشن کے دھبے سے خود کو بچایا ہماری پارٹی کے اسوقت پنجاب میں 9کونسلران ہیں ۔انہوں نے کہا کہ فوج اور ایف سی وفاق کے ادارے ہیں تمام اداروں کو انکے سربراہوں کے سپرد کیا تاہم اپنا اصولی موقف سب کے سامنے رکھتا تھا لیفٹیننٹ جنرل ناصرخان جنجوعہ سے میری اچھی کوارڈی نیشن تھی جس کی وجہ سے بہت سے معاملات میں مشکلات درپیش نہیں آئیں ۔ناراض بلوچوں کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ خان قلات اور براہمدغ بگٹی سے مذاکرات پہلے مرحلے میں ہوئے تھے جس کے بعد ڈاکٹر اللہ نذر اور حیربیارمری سے بات چیت ہونا تھی براہمدغ بگٹی سے جنیوا میں ایک سے زیادہ بار ملاقات ہوئی جسکے بار ے میں وزیراعظم اور آرمی چیف آگاہ تھے میں بلوچ کی سوچ کو جانتا ہوں اس سلسلے میں انتہائی محتاط ہوکر قدم اٹھائے اور وزیراعظم میاں نواز شریف اور آرمی چیف سے بھی کہا کہ معاملہ سیاسی ہے اسکا سیاسی حل نکالنا چاہئے اور کوئی بھی ایسا نکتہ نہیں ڈالنا چاہئے جو کہ بلوچ سوچ کے مخالف ہو براہمدغ بگٹی سے ملاقات میں کہا کہ نواب اکبر بگٹی کی شہادت کو فالو کریں وہ بالکل لڑنا نہیں چاہتے تھے انہیں اس حد تک مجبور کیا گیا۔نئے وزیراعلیٰ بلوچستان اور کورکمانڈر سے بھی یہی کہا ہے کہ اس معاملے کو آگے لیکر چلنے کی ضرورت ہے میں اور نواب ثناء اللہ زہری مذاکرات کے معاملے میں ایک پیج پر تھے انہوں نے بلوچستان میں بیرون ملک سے مداخلت کے سوال کے جواب میں کہا کہ بلوچستان کئی دہائیوں سے کنفلیکٹ زون ہے وہاں بے شمار لوگ شامل ہیں جن میں انڈیا ،افغانستان اور کچھ دوست ممالک مداخلت کرتے رہے ہیں نوابزادہ براہمدغ بگٹی اور حکومت کے درمیان صلح کے امکانات زیادہ ہیں کیونکہ وہ بھی مسئلے کا سیاسی حل نکالنا چاہتے ہیں انہیں بیرونی سپورٹ ضرور ملی ہوگی کیونکہ اتنی بڑی جنگ اکیلے نہیں لڑی جاسکتی ۔انہوں نے کہا کہ کاش بلوچستان میں 1970ء میں اس طرح کا انفراسٹرکچر تعمیر کیا جاتا تو آج بلوچستان کی صورتحال مختلف ہوتی ۔بلوچستان کے ساحل و وسائل پر کبھی کوئی سمجھوتہ نہیں کیا اور وفاق میں بھی اپنا موقف واضح انداز میں رکھا کہ گوادر کی جغرافیائی تبدیلی منظور نہیں ہے اور پورٹ اتھارٹی بلوچستان کو دی جانی چاہئے ۔انہوں نے سی سی آئی پر بات کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان کے بہت سے معاملات سی سی آئی میں پڑے ہیں تاہم اس کا اجلاس نہ ہونے کے باعث معاملات تاخیرکا شکار ہیں