کراچی:بی این پی اور نیشنل پارٹی کے درمیان چند ہفتے قبل اتحاد کے حوالے سے رابطے ہوئے، مستقبل کے حوالے سے اہم سیاسی فیصلے کئے جانے کا امکان تھا مگر ایک دو رابطوں کے بعد اچانک دونوں جماعتیں ایک دوسرے کے خلاف بدترین الزامات کی بوچھاڑ شروع کردی۔ نیشنل پارٹی کے ایک اہم ذمہ دار سے جب ہم نے حالیہ اختلافات کی وجوہات معلوم کیں کہ تو انہوں نے بتایا کہ ہماری طرف سے اب بھی اتحاد اور بات چیت کے راستے کھلے ہوئے ہیں
مگر حالیہ کشیدگی کا آغازبی این پی کی جانب سے کیا گیا اور ہم پر سنگین ترین الزامات لگائے گئے جس میں قتل سمیت دیگر ایسے معاملات ہیں جس سے نیشنل پارٹی کا سرے سے تعلق نہیں ہماری جانب سے اس بیان پر ایک ہی بار ردعمل آیااور اس کے بعد ہم نے دوبارہ بی این پی کے خلاف کسی طرح کا بیان جاری نہیں کیا،
انہوں نے بات چیت کے دوران یہ بھی کہا کہ سردار اختر مینگل کی مرضی لازمی شامل ہوگی کہ یہ بیان دیا گیا اور اس کے ساتھ ہی انہوں نے اتحاد کے متعلق بتایاکہ بی این پی کے سربراہ کی ذاتی کاوش جب بھی ہوگی تب اتحاد ہوسکتی ہے کیونکہ سردار اختر مینگل ہی اپنی جماعت کے تمام فیصلے ذاتی طور پر کرتے ہیں۔ ہماری طرف سے سوال کیا گیا کہ 2013ء کے انتخابات کے دوران دونوں جماعتوں کے درمیان اتحادکے حوالے سے بات چیت چل رہی تھی
اچانک آپ کا اتحاد ن لیگ اور پشتونخواہ میپ سے ہوا جس کی تردید کرتے ہوئے بتایا کہ ہمارا کوئی اتحاد ان دوجماعتوں کے ساتھ نہیں تھامخلوط حکومت میں شامل ضرور تھے
مگر سیٹ ایڈجسٹمنٹ نہیں ہوئی تھی۔ میں نے ایک سال قبل سردار اختر مینگل سے 2013ء کے انتخابات کے دوران نیشنل پارٹی کے اتحاد پر سوال کیاتھا جس پر سردار اختر جان مینگل نے انٹرویو کے دوران بتایا کہ میں دبئی سے جب واپس آیا تو اور ہم اپنے اتحاد کو حتمی شکل دے رہے تھے تو نیشنل پارٹی کی جانب سے جواب ملا کہ ہمارا اتحاد ن لیگ اور پشتونخواہ میپ سے ہوچکا ہے
جس پر نیشنل پارٹی ذرائع نے پھر تردید کی اور کہا کوئی اتحاد نہیں ہوا تھااور سردار اختر مینگل صاحب کی دلچسپی بھی زیادہ اس حوالے سے ہمیں دکھائی نہیں دیتی اگر سردار اختر مینگل ذاتی طور پر جس دن دلچسپی لینگے تو یہ اتحاد ہوگا۔
میں نے وڈھ کی نشست پر شفیق مینگل کی حمایت کے متعلق سوال کیا اورنیشنل پارٹی کے صدر ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کا حوالہ بھی دیا کہ آپ کی جماعت نے سردار اخترمینگل کے بدترین مخالف کی حمایت کی اور الیکشن میں اس کے لیے کام کیا اس پر بھی انہوں نے تردید کی مگر ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے مجھ سے دیئے گئے انٹرویو میں اس کی تردید نہیں کی تھی بلکہ تصدیق کرتے ہوئے اسے غلط فیصلہ قرار دیا تھا۔ بہرحال نیشنل پارٹی کے اہم ذمہ دار موجودہ اور سابقہ معاملات سے اپنی جماعت کو بری الذمہ قرار دیتے دکھائی دیئے مگر کچھ حقائق واضح ہیں کہ سیاسی غلطیاں ہوئی ہیں
جس کوتسلیم کئے بغیر سیاسی معاملات طے نہیں پاسکتے۔ بی این پی کے اہم ذمہ دار سے ہم نے حالیہ سیاسی کشیدگی پر سوال کیا تو انہوں نے دوٹوک مؤقف دیتے ہوئے بتایا کہ بی این پی اور نیشنل پارٹی کے اندر موجود چند اہم شخصیات اس میں باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت ملوث ہیں اور انہوں نے سازشی عناصر کالفظ استعمال کرتے ہوئے کہا کہ یہ سازشی ٹولہ اور چاپلوس لیڈر شپ کو گمراہ کرتے ہیں اور کشیدگی کو مزید ہوا دینے کی کوشش کرتے ہیں کیونکہ انہیں اپنے ذاتی مفادات عزیز ہیں بلوچ اور بلوچستان کے مسائل سے ان کو کوئی غرض نہیں ہے
یہ ہمارا سب سے بڑا المیہ ہے۔ ایک اہم ذرائع سے ہم نے ان دوجماعتوں کے کشیدگی اور اتحاد کے متعلق پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ اسلام آباد میں چیئرمین سینیٹ کے انتخاب کے لیے میرحاصل خان بزنجو مرحوم اور میرصادق سنجرانی کے لیے مہم چلائی جارہی تھی تو اس دوران بی این پی اور نیشنل پارٹی کے چند اہم شخصیات سرگرم تھے
کہ میرحاصل خان بزنجو کی جیت کو یقینی بنایاجائے تاکہ یہاں سے مستقبل کے اتحاد کا راستہ کھل سکے انہوں نے بتایا کہ بی این پی کا ایک ووٹ سینیٹ میں تھا اور وہ باقاعدہ میرحاصل خان بزنجو کے انتخابی مہم میں اور جیت کے لیے سرگرم رہا یہاں تک کہ بی این پی کے سربراہ سردار اختر جان مینگل سے مسلسل بات چیت کی کہ اب یہ موقع ہمارے ہاتھ آیا ہے ہم میرحاصل خان بزنجو کی حمایت کرکے مستقبل میں ایک اتحاد کی طرف بڑھیں گے بقول اس ذرائع کے اگر آپ ہم مہم بھی چلائیں اورووٹ بھی دیں نیشنل پارٹی کی قیادت یقین نہیں کرے گی
مگر بے حد اصرار کے بعد سردار اختر جان مینگل اس پر راضی ہوئے اور بی این پی کا ووٹ بقول اس ذرائع کے میرحاصل خان بزنجو کو دیا گیا، ذرائع نے باقاعدہ چیئرمین سینیٹ کے انتخاب پرمیرصادق سنجرانی کوجن جماعتوں نے ووٹ دیئے ان کے نام اور ووٹ کی تعداد بھی بتائی۔ جمعیت علمائے اسلام کے 2 سینیٹرز، پاکستان پیپلزپارٹی کے 3سینیٹرز،ن لیگ کے 8سینیٹرز اور عوامی نیشنل پارٹی کے دو سینیٹرز نے میرحاصل خان بزنجو کے خلاف ووٹ کاسٹ کئے۔ میں نے سوال کیا کہ ہارس ٹریڈنگ یا پھر دباؤ تھا؟
جس پر ذرائع نے بتایا کہ رقم بھی پی ٹی آئی سے لیے گئے اور دباؤ بھی اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے تھا مگر بنیادی سوال یہ اٹھتا ہے کہ ان جماعتوں نے اپنے سینیٹرز کو شوکاز نوٹس کیونکر جاری نہیں کیا جبکہ انہیں ناموں کا باقاعدہ علم ہے۔ بہرحال بی این پی اور نیشنل پارٹی کے درمیان اتحاد کے متعلق جو ماضی اور موجودہ فضاء کاجائزہ لیاجائے تو یہ اتحاد بنتا دکھائی نہیں دے رہا ہے
مگر یہ المیہ ضرور ہے کہ یہ بلوچستان کی دوبڑی قوم پرست جماعتیں جو ہر وقت بلوچستان کے وسائل بلوچ قوم کے حقوق کے دعوے کرتے دکھائی دیتے ہیں اندرون خانہ اتنی کمزور اسٹرکچر کے ساتھ چل رہے ہیں تو کس جماعت سے بلوچ قوم امیدیں وابستہ رکھیں۔ بہرحال دونوں جماعتوں کے سربراہان کو ضرور سوچنا ہوگا کہ یہ مستقل کشیدگی اور اختلافات دونوں جماعتوں کے لیے نقصان دہ ثابت ہوگا اور ووٹ بینک سمیت پارٹی کے اندر انتشار اور ٹوٹ پھوٹ کا باعث بھی بن سکتا ہے۔