|

وقتِ اشاعت :   December 13 – 2022

بلوچستان کے ساتھ وفاقی حکومت پھرکوئی واردات کرنے جارہی ہے۔ماضی سامنے ہے کہ کس طرح سے بلوچستان کے میگامنصوبوں کو مال مفت دل بے رحم سمجھ کر کمپنیوں کے حوالے کرکے منافع کمایا گیا اور ذاتی طور پر بھی اس سے مستفید ہونے کی ایک طویل تاریخ ہے کہ کس طرح سے سیاسی اور دیگر بڑی شخصیات مختلف منصوبوں میں اپنا ہاتھ صاف کرتے رہے ہیں اور یہ انکشافات خود وفاقی حکومتوں میں شامل شخصیت ایک دوسرے پر الزامات لگاکر کرتے ہیں۔ بلوچستان کے معدنی وسائل کے لوٹ مار کا سلسلہ دہائیوں سے چل رہا ہے۔

جب بھی بلوچستان سے آواز اٹھی تو اسے منفی طورپر لیا گیا اور الزامات کی بوچھاڑ کرتے ہوئے بلوچستان کے سیاسی قائدین کو ترقی دشمن، عوام دشمن کے القابات سے نوازا گیا۔ پھر خود ہی اس بات کو تسلیم بھی کیا کہ بلوچستان کے ساتھ ماضی میں بہت زیادتیاں ہوئی ہیں جب ہم حکومت میں آئینگے تو بلوچستان کے زخموں پر مرہم رکھیں گے ناراض بلوچوں کو سینے سے لگاکر تمام تراختلافات کو ختم کیاجائے گا مگر افسوس رویوں میں کوئی فرق نہیں آیا۔ اب جب ریکوڈک منصوبے کے متعلق بل کا معاملہ آیا ہے تو وفاقی حکومت کی اپنی اتحادی جماعت بی این پی کے سربراہ سردار اختر مینگل نے شدید ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے اسے مسترد کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں راتوں رات قانون سازی کی جارہی ہے۔ایسے قانون سازی سے اٹھارویں ترمیم کو رول بیک کیا جارہا ہے۔اگر اٹھارویں ترمیم رول بیک کرنا ہے تو ون یونٹ ہی قائم کردیں لیکن اگر صوبے ہیں تو خدارا انہیں اختیارات دیں۔ایسے قانون سازی سے بلوچستان کو جس جانب دھکیلا جارہاہے وہاں سے واپسی کا کوئی راستہ نہیں ہوگا۔بتایا جائے یہ وحی کہاں سے نازل ہوتی ہے کہ جس کی وجہ سے را توں رات ایسی قانون سازی اور بل پاس کئے جاتے ہیں جن کا ارکان تک کو پتہ نہیں ہوتا۔

انہوں نے کہا کہ روزاول سے بلوچستان کے لوگوں کی بدقسمتی رہی ہے کہ ہم یہا ں کے حکمرانوں کو پوری رات لیلیٰ مجنوں کے قصے سناتے ہیں صبح ہم سے پوچھتے ہیں کہ لیلیٰ مرد تھی یا عورت۔ اس پر ہم کسی کو مورد الزام نہیں ٹھہراتے، ہم اپنی قسمت کو روتے ہیں جب سے یہ ملک وجود میں آیا کوئی بھی ایسی حکومت نہیں رہی جس نے بلوچستان کی گنگا میں اپنے ہاتھ نہیں دھوئے۔چاہے وہ معاہدات ہوں چاہے وہ سیاسی معاملات ہوں یا وہ سرمایہ کاری ہو۔کسی بھی حکومت نے بلوچستان کو اپنا حصہ نہیں سمجھا،البتہ ہمیشہ بلوچستان کے ساحل اورو سائل کو مال غنیمت اور اس کے لوگوں کو یتیم اور لاوارث سمجھا گیا۔ہم یہ سمجھیں کہ بلوچستان کے معدنی ذخائر بلوچستان کے لوگوں کی قسمت بدلنے کی بجائے انہی وسائل کی وجہ سے ہمارے نوجوانوں کو اٹھایا جارہا ہے ہمیں قبروں میں دفنایا جارہاہے ہمیں وسائل کے بدلے حق کے طور پر ہماری لاشیں زمین میں گھاڑدیے جاتے ہیں۔

ہمیں وسائل کے بدلے جو پھل ملے وہ گلے سڑے تھے سی پیک کے نام پر ملک بھر میں ترقیاتی کام ہوئے بلوچستان کو موم بتی تک نہ ملی۔ مخلوط حکومت میں کی جانیوالی قانون سازی میں سب جماعتوں کو اعتماد میں لیا جاتا ہے مگر افسوس سے کہنا پڑھتا ہے کہ یہاں جتنی بھی جماعتیں ہیں کسی کو اعتماد میں نہیں لیا گیا۔دوسری جانب نیشنل پارٹی کے مرکزی رہنما ء اور سینٹ میں نیشنل پارٹی کے پارلیمانی لیڈر میر طاہر بزنجو نے کہا ہے کہ جمہوری حکومت نے ریکوڈک کے حوالے سے بل کو پاس کروا کر سیاسی و جمہوری روایات کو روندھ ڈالا،جو 18 ویں ترمیم کو دفن کرنے کے مترادف ہے،یہ عمل نہ صرف افسوسناک بلکہ بھرپور قابل مذمت ہے۔نیشنل پارٹی کے رہنماء نے جاری بیان میں کہا کہ صوبائی اختیارات میں مداخلت اور غیر قانونی اختیارات لینے کے لیے حکومت نے عجلت میں ریکوڈک بل کو سینٹ میں لایا جو نہ ایجنڈے میں شامل تھا اور نہ ہی کسی سے اس بارے میں بات چیت ہوئی۔بل آنے پر نیشنل پارٹی اور چند جمہوری و آئین دوست سینیٹرز نے سخت احتجاج کیا لیکن افسوس کہ ایوان بالا کی تقدس کو پامال کرتے ہوئے ہمیں فلور نہیں دیا گیا،جو کہ افسوسناک ہے۔انہوں نے کہا کہ جو تسلسل سے 2018 میں بلوچستان میں مصنوعی جماعت بناکر اس کو انتخابات میں کامیاب بنایا گیاجس نے بتدریج اپنے صوبائی اختیارات سے چشم پوشی اختیار کی اور خود کے اختیارات کو وفاق کے سپرد کرنے میں لگی رہی،وہ سب کے سامنے عیاں ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ توقع نہیں تھی کہ وفاق میں موجود جمہوری و 18 ویں ترمیم کی خالق جماعتیں ایسا منفی اقدام کرینگے۔18 ویں ترمیم کو رول بیک کرنے کی کوشش تو روزاول سے رہی لیکن جمہوری جماعتوں نے اس پر سمجھوتا نہیں کیالیکن آج اس غیر جمہوری عمل کا حصہ بن کر 18ویں کے ساتھ کھلواڑ کرنے سمیت قومی اکائیوں سے سنگین ناانصافی کی گئی۔واضح رہے کہ اس سے قبل بھی آزادی نیوز مسلسل بلوچستان کے پروجیکٹس میں ہونے والی بے قاعدگیوں اور کرپشن سمیت دیگر مسائل کو اجاگر کرتی رہی ہے جبکہ حال ہی میں وزیراعظم میاں محمد شہباز شریف نے دورہ چین پر بلوچستان کے اپنے اتحادیوں کو اعتماد میں نہ لیتے ہوئے دورہ کیا اور یہ ضروری بھی نہیں سمجھا کہ بلوچستان کے اپنے اتحادیوں میں سے چند ارکان کو چین دورہ پر لے کر جائیں تاکہ انہیں تمام تر پروجیکٹس اور ان کے مستقبل کے بارے میں مکمل آگاہی دے سکیں۔

بہرحال پی ڈی ایم کی موجودہ حکومت سے یہ توقع نہیں تھی خاص کر ن لیگ سے تو بالکل ہی نہیں تھی کیونکہ مریم نواز جب کوئٹہ آئیں تھیں تو انہوں نے بلوچستان کے ساتھ کھڑے رہنے کا وعدہ عوام کے درمیان کیا تھا۔

کیا وہ صرف اپوزیشن کے وقت بلوچستان کو صرف ٹول بناکر استعمال کرنے تک تھا، اگر یہی روش بڑی سیاسی جماعتوں کارہا تو بلوچستان کے مسئلہ کبھی بھی حل نہیں ہوگا، تلخیاں مزید بڑھیں گی۔ وقت کی نزاکت کو بھانپتے ہوئے ملک کے ایک بہت بڑے خطے کو ساتھ ملاکر چلنا ضروری ہے اس کے بغیر ترقی کا خواب ممکن نہیں ہوسکتا۔ اب یہ ذمہ داری ن لیگ کی بنتی ہے جو اس وقت وفاق میں بیٹھ کر اہم فیصلے کررہی ہے اگر انہوں نے بلوچستان کے زخموں پر مرہم نہ رکھا تو یقینا فاصلے بڑھیں گے پھر شکوہ بلوچستان کی سیاسی جماعتوں سے کرنا بے معنی ہوگا۔