لاہور: پنجاب اسمبلی کی اپوزیشن جماعتوں مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلزپارٹی نے وزیراعلیٰ پنجاب پرویز الٰہی، اسپیکرپنجاب اسمبلی سبطین خان اور ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی واثق قیوم کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کرادی۔ن لیگ کی جانب سے میاں مرغوب، خلیل طاہرسندھو، خواجہ عمران نذیرنے تحریک عدم اعتماد جمع کرائی جبکہ پیپلزپارٹی کے پارلیمانی لیڈر حسن مرتضیٰ بھی ن لیگ اراکین کے ہمراہ تھے۔ ذرائع کے مطابق سیکرٹری اسمبلی عنایت اللہ لک نے رات 9 کے بعد تحریک عدم اعتماد کی تحریک وصول کی تاہم اسپیکر پنجاب اسمبلی عدم اعتماد جمع ہونے سے لاعلم تھے۔
ذرائع نے بتایا کہ سیکرٹری اسمبلی عنایت اللہ لک شام ساڑھے چار بجے ایوان وزیراعلیٰ میں تھے، شام ساڑھے چار بجے وزیراعلیٰ اور مونس الٰہی ایوان وزیراعلی میں موجود تھے۔ ذرائع اسمبلی سیکرٹریٹ کا کہنا تھاکہ سیکرٹری اسمبلی رات دیر تک آفس میں کام کرتے ہیں۔ پنجاب اسمبلی میں میڈیا سے گفتگو میں پیپلزپارٹی کے پارلیمانی لیڈر حسن مرتضیٰ کا کہنا تھاکہ ہم نے وزیراعلیٰ، اسپیکراور ڈپٹی اسپیکر کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کرائی ہے۔ ان کا کہنا تھاکہ ہم پارلیمان کو بچانے اورپارلیمان کی بالادستی کی جدوجہد کررہے ہیں، ہمارے پاس نمبرز پورے ہیں اور 186 نمبرز حکومت کو دکھانے پڑیں گے۔انہوں نے کہا کہ آصف زرداری ممکنات کے کھلاڑی ہیں وہ جسے چاہیں گے وہ اگلا وزیراعلیٰ آئے گا۔دریں اثناء گورنر پنجاب نے وزیراعلیٰ پنجاب کو اعتماد کا ووٹ لینے کی ہدایت کردی۔
گورنر پنجاب کی جانب سے جاری مراسلے کے مطابق پنجاب اسمبلی کا اجلاس بدھ شام 4 بجے طلب کیا گیا ہے۔ مراسلے کے مطابق اجلاس میں وزیراعلیٰ پنجاب اعتماد کا ووٹ لیں گے۔ دوسری جانب وزیراعظم شہباز شریف کے معاون خصوصی عطا تارڑ کا بھی کہنا ہیکہ عدم اعتماد کے بعدگورنر پنجاب نے وزیراعلیٰ پنجاب کو اعتمادکا ووٹ لینے کا بھی کہہ دیا ہے۔ پنجاب اسمبلی کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے عطا تارڑ کا کہنا تھا کہ گورنر پنجاب کی جانب سے وزیراعلیٰ کو اعتمادکا ووٹ لینے کا کہاگیا ہے۔ عطا تارڑ کا کہنا تھا کہ ہم انتخابات کے لیے بھی تیار ہیں لیکن ہم چاہتے ہیں اسمبلیاں مدت پوری کریں۔ان کا کہنا تھا کہ آئین میں درج ہے کہ تحریک عدم اعتماد جمع ہوجائے تو اسمبلی تحلیل نہیں ہوسکتی، وزیراعلیٰ پنجاب کو بدھ شام 4 بجے اعتمادکا ووٹ لینا ہوگا۔