|

وقتِ اشاعت :   December 28 – 2022

’’گوادرحق دو تحریک‘‘ کے رہنماؤں اور دیگر کے خلاف کریک ڈاؤن، تشدد،گرفتاریوں کے خلاف شدید ردعمل سامنے آرہا ہے،بلوچستان کے بیشتر علاقوں خاص کر کیچ میں احتجاجی مظاہرے اور شٹر ڈاؤن ہڑتال کا سلسلہ جاری ہے۔ سیاسی ،مذہبی جماعتوں سمیت سول سوسائٹی کی جانب سے بھی احتجاج اور مذمت کی جارہی ہے۔ بہرحال گوادر حق دو تحریک کے متعلق حکومت کی جانب سے جو مؤقف دیا گیا ہے اسے کل اسی اداریہ میں تحریرکیا گیا تھا جبکہ حق دو تحریک کی جانب سے بھی یہی بتایاجارہا ہے کہ ہم پُرامن احتجاج پر یقین رکھتے ہیں اور ہم نے پہلے بھی حکومت کے ساتھ مذاکرات اور بات چیت کی تھی۔

جس کے بعد وزیراعلیٰ بلوچستان میرعبدالقدوس بزنجو کے ساتھ معاہدہ ہوا تھا مگر اس پر پیشرفت نہیں ہوئی جس کے بعد ہم نے اپنے مطالبات کے لیے جمہوری اور آئینی حق استعمال کرتے ہوئے دھرنا شروع کیا جو تاہنوز جاری ہے۔ بلوچستان کے ساحلی پٹی کی تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو یہاں کے لوگوں کے آمدن کے دو ہی ذرائع ہیں ایک ماہی گیری اور دوسرا ایران سرحد سے تجارت۔ افسوس کا مقام یہ ہے کہ گزشتہ کئی دہائیوں سے غیر قانونی ٹرالنگ کے ذریعے ماہی گیروں کی حق تلفی کی جارہی ہے ،بڑے بڑے ٹرالرز مافیا سمندر میںغیر قانونی شکار کرکے ماہی گیروں کو معاشی حوالے سے نقصان پہنچارہے ہیں اور ساتھ ہی نایاب سمندری حیات کی نسل کشی بھی ہورہی ہے۔

جس کی نشاندہی پہلے بھی کی جاچکی ہے کہ اس غیر قانونی عمل کو روکنے کے لیے اقدامات اٹھائے جائیں ۔اس پر متعدد بار احتجاج بھی کیاجاچکا ہے مگر اس پر کوئی نوٹس نہیں لیا گیا اور نہ ہی ٹرالنگ کو روکا گیا کیونکہ اس کے پیچھے ایک بہت بڑا مافیا ملوث ہے جو چند آفیسران کو رشوت دیکر، چند سیاسی جماعتوں کی پشت پناہی حاصل کرکے اس عمل کو جاری رکھے ہوئے ہے، کیا ان کے خلاف قانون حرکت میں نہیں آسکتی ،ان مافیا زکے ٹرالنگ کو روکنے کے ساتھ ان کے خلاف قانونی کارروائی نہیں کی جاسکتی ؟ لیکن افسوس اگر قانونی طور پر ان کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جاتی تو آج گوادر میں یہ حالات پیدا نہ ہوتے ،ایسے مواقع کیوں پیداکئے جاتے ہیں کہ لوگ مجبور ہوکر گھروں سے باہر نکل کر سڑکوں پر آکر دھرنادیں جس میں خواتین ، بچے بزرگ شامل ہیں۔

اس پورے عمل میں کوئی سازش شامل نہیں ہے بلکہ جائز مطالبات ہیں اور ان سے حکومت خوب واقف ہے اور ان مطالبات کی فہرست حکومت کے پاس موجود ہے جن پر مذاکرات بھی توہوئے تھے، اگریہ غیر قانونی مطالبات ہوتے تو حکومت کس طرح معاہدہ کرتی ؟المیہ تو یہ ہے کہ ایک طرف سمندر پر ٹرالرمافیا کا قبضہ ہے تو دوسری جانب سرحد پر ایک اور مافیا کو بٹھاکر ٹوکن سمیت دیگر نظام کے ذریعے گوادر سمیت مکران ڈویژن کے کاروباری طبقے،مزدوراور عام لوگوں کے منہ سے نوالہ چھین لیا گیا ہے ،اس پر بھی احتجاج عرصہ دراز سے جاری ہے لیکن اس پرصرف تسلیاں دی جاتی ہیں مگر کوئی خاطر خواہ اقدامات نہیں اٹھائے جاتے۔ خدارا بلوچستان کے عوام پر رحم کیاجائے ،یہاں روزگار کے ذرائع محدود ہیں بڑی تعداد میں نوجوان بیروزگاری کا شکار ہیں۔

بلوچستان کے بڑے منصوبوں سے عوام کو کیاملا ہے؟ اس سوال کا جواب آج تک نہیں دیاجاتا تو کس طرح سے ان مظاہرین پر لاٹھی چارج، تشدد، گرفتاریاں کرکے قانون کی بالادستی کی بات کی جاتی ہے۔ ایک مثال واضح ہے کہ اسلام آباد میں جب پی ٹی آئی کے ماضی کے دھرنے میں پی ٹی وی سینٹر کے اندر داخل ہوکر توڑ پھوڑ کی گئی، سپریم کورٹ کے باہر کپڑے لٹکائے گئے ،قانون کی مکمل پامالی گئی جبکہ حال ہی میں اسلام آباد میں احتجاج کے دوران املاک کو نقصان پہنچایا گیا ،آگ لگائی گئی مگر ان پر قانون لاگو ہی نہیں ہوتا، تو پھرقانون کا یہ دہرا معیار کیوں؟ اس لیے بلوچستان کی عوام ذہنی طور پر یہ سمجھتی ہے کہ قانون صرف ہمارے لیے ہے خاص جماعتوں کے کارکنوں کے لیے ریلیف ہی ریلیف ہے، ان پر کوئی قانون لاگو نہیں ہوتا۔ یہ سوچنا اب صوبائی اور وفاقی حکومت کاکام ہے کہ وہ گوادر سمیت بلوچستان کے اہم مسائل کو کس طرح دیکھے گی اور ان کے حل کیلئے کیا پالیسی اپنائے گی؟ امید کرتے ہیں کہ گفت وشنید ہی سے معاملے کو حل کیاجائے گا اور بلوچستان کے عوام کو خاص ریلیف فراہم کرنے کے حوالے سے اقدامات اٹھائے جائینگے۔