کوئٹہ : خا ن آف قلات میر سلمان داؤد خان نے بلوچ سیاستدانوں کے ساتھ بات چیت کی حکومتی دعوے کے بارے میں کہا ہے کہ میں گزشتہ چند ماہ سے اخبارات اور ٹی وی چینل میں بات چیت کے تسلسل اوراس کی کامیابی کے بارے میں خبریں دیکھتا اورسنتا آیا ہوں جو علط بیانی پر مبنی ہے انہوں نے سختی سے تردید کی کہ ا ن سے کوئی سرکاری رابطہ ہوا ہے یا اس بارے میں کوئی بات چیت ہوئی انہوں نے کہا قبائلی معتبرین کا ایک وفد جس میں نواب محمد خان شاہوانی ،سردار کمال خان بنگلزئی ،میر خالد لانگو ،سینیٹرکبیر محمد شہی شامل تھے نے مجھ سے ملاقات کی اورا س کے بعد سردار ثنااللہ زہری اور پھر میر قدوس بزنجو اور میر مجیب الرحمان محمد حسنی بھی الگ الگ میرے پاس آئے تھے یہ ملاقاتیں کھانے پر ہوئیں اور ہم نے عمومی طور پر بلوچستان ،قبائل اور قبائلی جھگڑوں کے بارے میں بات کی انہوں نے کہا میں اس بات کی سختی سے تردید کرتا ہوں کہ بلوچ وسائل ان پران کے اختیار،بلوچستان میں جاری آپریشن ،بلوچ نوجوانوں کی گمشدگیاں ،عورتیں ،بچے کی بے عزتی،گھروں کو مسمار کرنے جیسے بلوچ ایشوز پر کوئی بات چیت ہوئی ہو البتہ سردار ثنااللہ زہری نے مجھ سے دریافت کیا کہ آپ کا کیا پروگرام ہے اور میرا جواب تھاآپ لوگوں نے مجھے بھیج دیا اور خود سرکار کا حصہ بن گئے ان میں سے مذکورہ بالا شخصیات میں سے کوئی سرکاری حیثیت سے میرے پاس نہیںآیا تھا اور نہ ہی سرکاری طور پر انہوں نے کوئی بات کی نواب شاہوانی نے مجھ سے استفسار کیا کہ ہم قبائلی معتبرین پر مشتمل ایک گرینڈ جرگہ آپ کو لینے آئیں گے تب بھی میرا جواب یہی تھا اور میں نے ان سے پوچھا کہ کیا آپ اور آپ کی حکومت با اختیار ہے تو انہوں نے اثبات میں جواب دیاتو میں نے انکو کہاکہ اگرآپ با اختیار ہیں تو پہلے لاپتہ افراد کا مسئلہ حل کرائیں بلوچستان میں جاری آپریشن بند کرائیں چادر اور چاردیواری کی پامالی کو روکیں ہماری ما ں بہنوں کی جو بے عزتی ہورہی ہے اسے روکا جائے تو انہوں نے کہا کہ ہم جاکر اس معاملے میں ضرور کچھ کریں گے انہوں نے کہا کہ میں نے قبائلی معتبرین کو کہا کہ مجھے بہت بڑے قبائلی جرگے نے بھیجا تھا اور میں اس کا پابند ہوں اگر اسی طرح کے قبائلی جرگے کا انعقاد ہوتا ہے اور وہ یہ فیصلہ کرتا ہے توتب بھی میں اسکا بھی پابند ہوں انہوں نے بلوچ لیڈروں سے بات چیت کے بارے میں کہا کہ اگر کبھی بات ہوئی تو وہ بات بے اختیار وفاقی و صوبائی حکومتوں سے نہیں ہوگی بلکہ براہ راست فوج سے ہوگی جس میں کوئی تیسرا فریق جو منصف کے فرائض سرانجام دے گااس کی موجودگی میں ہوگی چاہے یہ منصف کوئی بھی مغربی ملک ہو یا کوئی خلیجی ریاست ہو یا یونائیٹڈنیشن کی کوئی باڈی ہو سکتی ہے مذاکرات کا اگر ہمیں کوئی شوق ہوتا تو سابق صدرآصف علی زرداری اور سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اور موجودہ وزیراعظم میاں نواز شریف نے مجھے اپنے قریبی حلقوں سے رابطہ کیا تو ہم ان کی بات مان کر ان سے بات چیت کا شوق پورا کرلیتے جب بھی بلوچ اور بلوچستانی عوام کی طرف سے دبا و حکومت اور ان حکمرانوں پر بڑھتا ہے تو وہ پھر بات چیت کا راگ الاپنا شروع کردیتے ہیں اور اپنی کامیابی کے دعوے کرتے ہیں انہوں نے کہا کہ ہمیں ناراض بلوچ کہتے ہیں ہم کوئی ناراض نہیں ہیں ناراض تو بندہ اس وقت ہوتا ہے جس کا کسی چیز پر حق نہ ہوہمارا تو حق ہم سے چھین لیا گیا ہے اور ہم روز اول سے اپنا حق لینے کی کوشش کر رہے ہیں چاہے 1948 ء کی انسرجنسی 1958ء کی ہو یا 1963ء،1970ء یا آج کا ہویہ ایک طویل قربانیوں سے بھری ہوئی جدوجہد ہے پچھلے 67سال میں بلوچ ہمیشہ سے مظلوم اور محکوم رہا ہے آج حکومت بلوچستان میں جو بلوچ لیڈران بیٹھے ہیں انکو پشاور سانحہ کا بڑا درد ہے جو میرے نزدیک بدترین بربریت کا واقعہ ہے جس میں معصوم بچوں کو نشانہ بنایا گیا لیکن یہی لیڈر اس درد کوبلوچستان کیلئے کیوں محسوس نہیں کرتے ہیں آج جو بلوچستان جل رہا ہے جس میں معصوم بچے ،عورتیں ،بوڑھے نشانہ بن رہے ہیں ہماری ما ں اور بہنوں کی عزت محفو ظ نہیں ہے چادر اور چار دیواری کا کوئی تقدس نہیں ہے ہزاروں نوجوانوں کوغائب کیا گیا مارا گیاان میں سے بہت کی نعشیں سڑکوں پر پڑی ہوئی ملیں سپریم کورٹ اور ہائیکورٹ نے اسکا نوٹس بھی لیا اور بہت سے لوگوں کو مجرم بھی ٹھہرایا جو ریکارڈ کا حصہ ہے یہ حکومتی لیڈران بلوچستان میں آپریشن اور دیگر ہونے والی کاررائیوں میں برابر کے شریک ہیں اور اس سے پہلے بھی جو حکومتی عہدوں پر براجمان رہے ہیں وہ بھی اس میں برابر کے شریک رہے ہیں میں تو یہ کہتا ہوں کہ جو انکو ووٹ دیتے ہیں وہ بھی ہوش کے ناخن لیں کیونکہ انکے ووٹوں سے یہ منتخب ہوتے ہیں اور بلاواسطہ وہ بھی اس ناکردہ گناہو ن میں شریک ہیں۔انہوں نے کہا کہ آج بلوچ قوم میں شعور اور تعلیم آگئی ہے آج اسکی عورت نکلتی ہے یہ جو ظلم کے پہاڑ بلوچ قوم پر ڈھائے جارہے ہیں اسکے خلاف وہ آواز اٹھاتی ہے دنیا کے سب سے بڑے لانگ مارچ میں وہ شریک ہوتی ہے اور یہ ضرور ایک دن رنگ لائے گی۔گوادر پورٹ اورپاک چائنا کاریڈور کے متعلق انہوں نے کہا کہ جب سلطان مسقط سعید 1783میں اپنے خاندانی جھگڑے کی وجہ سے خان نصیرخان کی پناہ میں آیا تھا تو انہوں نے انکو گوادر دیا اوراسکی آمدن انکے دسترخوان کیلئے وقف کردی اور پھرکچھ سالوں بعد جب وہ بلوچوں کو اپنی مدد کیلئے یہاں سے لے گیا اوراپنی حکومت واپس لے لی تو خان آف قلات کو ایک قسم کا سالانہ پانچ ہزار ٹیکس ادا کرتا تھا جس کی اسناد میرے پاس موجود ہیں اب 1956میں حکومت پاکستان نے مسقط سے حاصل کیا کن شرائط پرحاصل کیا یہ ہمیں پتہ نہیں۔ آیامسقط گواد رکواصل مالک کی بجائے کسی دوسرے کے حوالے کر بھی سکتا تھا وہ اپنی جگہ بہت بڑا سوال موجودہے ،یہاں پر صرف گوادر کی بات کرنا بے معنی ہوگی بلوچ تو اپنے تمام علاقوں بشمول گوادراور ساحل و وسائل کی جنگ لڑ رہا ہے جس میں سندھ کے علاقے خان گڑھ ،جیکب آباداور کراچی کے کچھ حصے ، خیبر پختونخوا کے ڈیرہ اسماعیل خان اور پنجاب کے علاقے ڈیرہ غازی بلوچوں کے علاقے تھے اور بلوچ انکو اپنا علاقہ سمجھتے ہیں اور مطالبہ کرتے آئے ہیں کہ وہ ہمیں واپس دیئے جائیں انہوں نے کہاکہ آج کل مختلف پارٹیاں مختلف آراکا اظہار کر رہی ہیں انہوں نے کہا کہ بلوچ اور افغان صدیوں سے ایک تاریخی رشتے میں منسلک ہیں جو افغان مہاجرین کئی دہائیوں سے بلوچستان میں پشتون ایریا(کچلا ک جلوگیر کے اس پار)اور خیبرپختونخوا میں رہ رہے ہیں وہ اپنی افغان سرزمین پر رہ رہے ہیں اور اگر بلوچ ایریا میں رہ رہے ہیں تو وہ ہمارے مہمان ہیں البتہ ان کو مقامی یا پاکستانی سیاست میں حصہ لینے کا حق نہیں ہے وہ مقامی کسی سیاسی جماعت کی مہم کا حصہ نہ بنیں کیونکہ وہ اس صدیوں پرانے رشتے کوخراب کرنا چاہتے ہیں ۔