کوئٹہ: نیشنل پارٹی کے سربراہ و سابق وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے کہا ہے کہ ہمسایہ ممالک کے ساتھ جب تک سازگار ماحول نہیں ہوگا تب تک معاشی ترقی ناممکن ہے اس لیے ہمسایوں کے ساتھ تجارت کو فروغ دیا جائے، ریکوڈک پر متنازعہ قانون سازی میں بلوچستان اسمبلی میں موجود سیاسی جماعتوں اور وفاقی جمہوری جماعتوں کی جانب سے قانون سازی کا حصہ بننا اور آئین پر شب خون مارنا حیرت انگیز و افسوسناک ہے،بلوچستان کا مسئلہ سیاسی ہے اور سیاسی مسائل کا حل بات چیت سے ممکن ہے ،نیشنل پارٹی نے انتخابی منشور پر کام کاآغاز کردیا اس سلسلے میں صحافی برادری بھی ہماری رہنمائی کرے یہ بات انہوں نے منگل کو نیشنل پارٹی کے مرکزی سیکرٹریٹ میں سنیئر صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہی۔
وفد میں پی ایف یو جے کے سنیئر نائب صدر سلیم شاہد ، کوئٹہ پریس کلب کے صدر عبدالخالق رند ، سنیئر نائب صدر افضل مغل ، نائب صدر اعظم الفت ، بلوچستان یونین آف جرنلسٹس کے جنرل سیکرٹری منظور احمد ، سنیئر صحافی جلال نورزئی ، ایوب ترین ، رشید بلوچ ، آصف بلوچ عیسٰی ترین ، ظفر بلوچ عبداللہ زہری شامل تھے جبکہ اس موقع پر نیشنل پارٹی کے صوبائی ترجمان علی احمد لانگو ، آغا گل ، نیاز بلوچ ، ستار بلوچ ، منظور راہی ، محسن بھٹو ، انیل غوری ، بی ایس او پجار کے مرکزی جوائنٹ سیکرٹری ابرار برکت ، نیشنل پارٹی کے ڈاکٹر رمضان ہزارہ ، کمال مری ، شیرجان بادینی ، کامریڈ غفار قمبرانی سمیت دیگر موجود تھے۔نیشنل پارٹی کے سربراہ سابق وزیراعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے سنیئر صحافیوںکا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان کے وسائل کے حوالے سے ہمیشہ کمزور اور غیر سیاسی حکومتوں کے زریعے معاہدئے کیے گئے ریکوڈک پر قانون سازی بھی اسی تسلسل کی کڑی ہے ۔
ریکوڈک پر متنازعہ قانون سازی میں بلوچستان اسمبلی میں موجود سیاسی جماعتوں اور وفاقی جمہوری جماعتوں کی جانب سے قانون سازی کا حصہ بننا اور آئین پر شب خون مارنا حیرت انگیز و افسوسناک ہے ائین قومی وسائل کو تحفظ فراہم کرتا ہے جس کے لیے جمہوری جماعتوں نے جدوجہد کی اور قربانیاں دی ہیں لیکن افسوس کہ خود ہی اس کو توڑا اور ریکوڈک کو بلوچستان سے چھیننے کے عمل کا آغاز کیا۔ انہوں نے کہا کہ انہوں نے بحیثیت وزیراعلیٰ ریکوڈک معاہدے کی توسیع نہیں کی کیونکہ یہ معاہدہ بلوچستان کے مفاد میں نہیں تھا ،اب بھی ایسے کسی معاہدے کو تسلیم نہیں کریں گے جو بلوچ قوم اور بلوچستان کے مفاد کے خلاف ہو۔ نیشنل پارٹی اپنے بنیادی فلسفہ پر کاربند ہے کہ وسائل پر پہلا حق وہاں کے عوام کا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سوئی گیس اور سیندک کے وسیع ذخائر کو بے دریغ استعمال کیا گیا لیکن ڈیرہ بگٹی اور چاغی میں پانی تک میسر نہیں باقی سہولیات کہاں ہونگی۔
گوادر سے متعلق ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ حکمران گودار کو لفظوں میں دبی سے تعبیر کرتے اور سی پیک کو گیم چینجر قرار دیتے ہیں جبکہ گودار کے عوام کا روزگار ماہی گیری سے وابستہ ہے وہاں غیرقانونی ٹرالنگ کے ذریعے سمندری حیات کی نسل کشی کے ساتھ ماہی گیروں کو سمندر سے دور رکھا جاتا ہے جس سے ماہی گیر نان شبینہ کا محتاج ہوگئے ہیں ، غیر قانونی ٹرالنگ کا خاتمہ اور ماہی گیروں کو زریعہ معاش فراہم کیا جائے ، نیشنل پارٹی ماہی گیروں کے ساتھ اور ان پر طاقت کے استعمال اور دفعہ 144 کی مذمت کرتی ہے۔ پی ڈی ایم سے متعلق ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ پی ڈی ایم کی تخلیق میں نیشنل پارٹی کے قائد میر حاصل بزنجو کا بنیادی کردار تھا ، نیشنل پارٹی پی ڈی ایم کے 26 نکاتی ایجنڈا کے ساتھ ہے لیکن وفاق کی اتحادی حکومت سے کوئی تعلق نہیں۔
انہوں نے بلوچستان میں مختلف شخصیات کی مختلف سیاسی جماعتوں میں شمولیت کے حوالے سے ایک سوال پر کہا کہ بلوچستان میں پوسٹنگ ٹرانسفر کا سلسلہ پرانا ہے ہر الیکشن میں اس منفی عمل کو دہرایا جاتا ہے جس پر حیرت بالکل نہیں لیکن نیشنل پارٹی یہ دعوے سے کہتی ہے کہ یہ عوام سے تعلق نہیں رکھتے اگر انتخابات شفاف ہوئے تو ان میں اکثر شکست سے دوچار ہوں گے۔ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ بلوچستان کا مسئلہ سیاسی ہے اور سیاسی مسائل کا حل بات چیت سے ممکن ہے ، نیشنل پارٹی کی حکومت نے اس وقت کی وفاقی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کو قائل کیا کہ وہ بلوچستان میں مذکرات کا اغاز کریں جس پر وہ آمادہ ہوئے اور ہم نے اس پر حوصلہ افزاء پیشرفت کی لیکن ہماری حکومت کے بعد اس تسلسل کو برقرار نہیں رکھا گیا اب بھی طاقت کا استعمال بگاڑ کا باعث ہے اس لیے مذاکرت کے عمل کو شروع کیا لاپتہ افراد کو بازیاب کیا جائے۔ ایک سوال پر انہوں کہا کہ نیشنل پارٹی نے انتخابی منشور پر کام کاآغاز کردیا اس سلسلے میں صحافی برادری بھی ہماری رہنمائی کرئے تاکہ ایک جامع اور خوبصورت منشور کے ساتھ انتخابات میں حصہ لے سکیں انہوں نے کہا کہ اگر انتخابات میں مداخلت نہ ہوئی اور پوسٹنگ و ٹرانسفر والوں کے لیے ٹھپہ نہ مارئے گئے تو نیشنل پارٹی بڑی سیاسی جماعت کے طور پر سامنے آئے گی۔ انہوں نے کہا جب تک ہمسایہ ممالک کے ساتھ سازگار ماحول نہیں ہوگا تب تک معاشی ترقی ناممکن ہے اس لیے ہمسایوں کے ساتھ تجارت کو فروغ دیا جائے۔