|

وقتِ اشاعت :   January 5 – 2023

بلوچستان میں تیزی سے بدلتی سیاسی صورتحال کوئی نئی بات نہیں ہے ماضی سے لے کر اب تک بلوچستان میں ایک مخصوص طبقہ ہر وقت حکمران جماعت کے ساتھ چلنے کی خواہش مند رہی ہے اب وہ قوم پرست جماعتیں ہوں یا مرکزی جماعتیں ان کی ترجیحات یہی رہی ہیںکہ ہوا کا رخ کس طرف ہے وہ اسی مناسبت سے اپنا سیاسی فیصلہ کرتے ہیں اور ہر دور میں حکومت کا حصہ بنتے آرہے ہیں، ان کی خواہش اہم عہدوں پر فائز ہونا ہے گوکہ اس میں ماضی کے تجربات بھی شامل ہیں کہ بلوچستان میں سیاسی انجینئرنگ کے ذریعے کس طرح سے سیاسی وفاداریاں تبدیل کرائی گئیں، حکومتوں کو چلتا کیا گیا ،عدم اعتماد کی تحریک کبھی لائی گئی تو کبھی گورنر راج نافذ کیا گیا ۔

بلوچستان میںنیپ کے بعد کوئی بھی مضبوط حکومت نہیں بن سکی۔ نیپ کی حکومت کو اس لیے ختم کیا گیا کہ انہوں نے بلوچستان کے حقوق حقیقی بنیادوں پروفاق سے لینے کی کوشش کی، چونکہ نیپ میں ایسی سیاسی شخصیات موجود تھیں جو نظریاتی ، ایمانداراوردیانتدار تھے جنہوں نے اپنی زندگی میں کبھی بھی بلوچستان کے وسائل، ساحل سمیت دیگر حقوق پر کسی طرح کا سمجھوتہ نہیں کیا ۔ نیپ کے دورمیں ذوالفقار علی بھٹو نے بطور وزیراعظم گورنر راج نافذ کرکے ایک ایسی بنیاد رکھ دی کہ آج تک بلوچستان کو ایک تجربہ گاہ کے طور پر استعمال کیاجارہا ہے۔ نیپ کے قائدین پر جو الزامات لگاکر انہیں پھانسی کی سزاؤں کو فیصلہ سنایا گیا، ٹارچر سیل میں رکھا گیا مگروہ اپنے مؤقف سے ایک انچ پیچھے نہیں ہٹے ۔

حکومت کی پرواہ بالکل ہی نہیں کی، آج بھی نیپ کے قائدین کے کردار کی مثال دی جاتی ہے کہ انہوں نے مظلوم اقوام کے حقوق کے تحفظ کے لیے جبر کے سامنے سر نہیں جھکایا ،بلآخر ضیاء الحق کے دور میں نیپ کے رہنماؤں کو رہا کیا گیا ،عام معافی کا اس لیے ذکر نہیں کیاجاسکتا کیونکہ انہوں نے حکومتی بھاگ دوڑ سنبھالتے ہی آئینی اختیارات استعمال کرتے ہوئے بلوچستان کو چلانے کی کوشش کی مگر اسے برداشت نہیں کیا گیا۔ بلوچستان پر مرکز کی گرفت مضبوط کرنے کی ایک طویل اور تلخ تاریخ ہے ۔بہرحال نیپ کے قائدین نے سیاسی حوالے سے شاندار کردار ادا کیا، ان کے مخالفین آج بھی ان کے جمہوری سوچ کے معترف ہیں۔ اس کے بعد کوششیں چند قوم پرست جماعتوں نے کیںمگر اس قدر سیاسی انجینئرنگ اور مداخلت ہوتی رہی کہ انہوں نے بھی ہاتھ کھڑے کردیئے اور اسی سیاسی ٹریک پر چلنا شروع کردیا۔

اب دلچسپ بات یہ ہے کہ جس باپ کی تشکیل 2018ء کے دور میں ہوئی، اس سے قبل سابق وزیراعلیٰ بلوچستان نواب ثناء اللہ زہری کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کی گئی جس میں مبینہ طور پر پیپلزپارٹی خاص کر سابق صدر آصف علی زرداری کا نام آرہا تھا کہ انہوں نے باقاعدہ پیسے دیئے اور ن لیگ کی صوبائی حکومت کا خاتمہ کیا اور اس کے بعد یہ کوششیں جاری رہیں کہ 2018ء کے عام انتخابات سے قبل ن لیگ کے منحرف اراکین پیپلزپارٹی میں شامل ہوجائیں اور امکانات نظر آرہے تھے کہ بعض ارکان شامل ہوجائینگے مگر انہیں اشارہ شاید کہیں سے نہیں ملا اور باپ کی بنیاد رکھ دی گئی ۔ اب باپ کے ارکان کی شمولیت ماضی کاہی تسلسل ہے جو کل ہونا تھا آج ہورہا ہے جس میں کوئی حیرانگی کی بات نہیں ہے۔ اب بلوچستان کے دیگر اہم قبائلی وسیاسی شخصیات بھی پیپلزپارٹی کو پیارے ہونے جارہے ہیں بعض نے شمولیت کرلی ہے جبکہ دیگر کی رسمی ملاقات اور شمولیت چند دنوں میں متوقع ہے جس کے بعد پیپلزپارٹی بلوچستان کی ایک بڑی جماعت بن جائے گی اور آئندہ عام انتخابات میں بآسانی باپ کی طرح حکومت بنائے گی۔