|

وقتِ اشاعت :   January 8 – 2023

بلوچستان اور پنجاب میں بڑی سیاسی تبدیلیاں پیدا ہورہی ہیں سب کی نظریں ان دوصوبوں پر مرکوز ہیں۔ پنجاب میں اسمبلی تحلیل ہونے کے بعد واضح ہوجائے گا کہ سیاسی منظر کس رخ اختیار کرے گا مگر اس وقت تمام بڑی سیاسی جماعتوں نے عام انتخابات سے قبل سیاسی صف بندیاں شروع کردی ہیں اور اپنی سیاسی سرگرمیوں میں تیزی لائی ہے۔

بلوچستان میں تو پاکستان پیپلزپارٹی میں جس تیزی کے ساتھ اہم شخصیات کی شمولیت ہورہی ہے اس سے مستقبل کا تجزیہ باآسانی کیاجاسکتا ہے کہ پیپلزپارٹی 2008ء کی طرح حکومت بنانے میں کامیاب ہوجائے گی جس کی بہت ساری وجوہات ہیں جس میں اہم جز یہ ہے کہ ان شخصیات کا سیاسی جھکاؤ جب بھی کسی جماعت کی طرف رہا ہے ان کی حکومت بنی ہے دوسرا بلوچستان عوامی پارٹی جیسی اہم پارٹی جو اس وقت بلوچستان میں حکومت کررہی ہے اس سے جڑے شخصیات آرہے ہیں اس لیے وہ غلط سیاسی فیصلہ کرکے خود کو خسارے میں نہیں ڈال سکتے۔ گزشتہ روز پاکستان پیپلزپارٹی پارلیمنٹرینز کے صدر آصف علی زرداری سے ملاقات کے بعد بلوچستان کے اہم سیاسی رہنما ء پاکستان پیپلزپارٹی میں شامل ہوگئے۔ سابق وفاقی وزیر سردار فتح محمد حسنی، سابق صوبائی وزراء نوابزادہ گزین مری اور طاہر محمود، وزیراعلیٰ بلوچستان کے کوآرڈینیٹر نوابزادہ جمال رئیسانی، میر فرید رئیسانی، میر عبداللہ راہیجہ اور میر اللہ بخش رندشامل ہیں اس سے قبل بلوچستان عوامی پارٹی کے سرکردہ رہنماء بھی پیپلزپارٹی شمولیت کرچکے ہیں۔

صدر زرداری نے پاکستان پیپلزپارٹی میں شامل ہونے والے بلوچستان کے سیاسی رہنماؤں کو مبارک باد دی۔اس موقع پر آصف علی زرداری کا کہنا تھا کہ بلوچستان اور پاکستان پیپلزپارٹی کا ایک تاریخی رشتہ ہے، پاکستان پیپلزپارٹی نے ہمیشہ بلوچستان کے حقوق کے لئے حقیقی جدوجہد کی ہے، بلوچستان کی سیاست میں پاکستان پیپلزپارٹی ایک مضبوط ترین فریق ہے، بلوچستان کے عام آدمی کے حقوق کے لئے اپنی جدوجہد پر کبھی سمجھوتہ نہیں کرینگے۔ دوسری جانب پنجاب کے سابق سینئر وزیر عبدالعلیم خان نے کسی بھی سیاسی جماعت میں شامل ہونے کی تردید کر دی۔

کہتے ہیں کہ ابھی انکی ساری توجہ فلاحی کاموں پر ہے۔پی ٹی آئی کے منحرف رکن علیم خان نے کہا کہ نئی سیاسی جماعت کے قیام میں انکی شمولیت کے حوالے سے خبروں میں صداقت نہیں۔ چوہدری سرور اور جہانگیر ترین سے اچھا تعلق ہے لیکن سیاست کا ارادہ نہیں۔سابق وسینئر صوبائی وزیر نے کہا کہ ابھی ساری توجہ فلاحی کاموں پر مرکوز ہے، سیاسی معاملات سے علیحدہ ہوں۔ کسی سیاسی جماعت کا حصہ ہوں اور نہ ہی بننے کا ارادہ ہے۔پاکستان تحریک انصاف ترین گروپ کے سینئر رہنما عون چوہدری نے بھی نئی پارٹی بنانے کی خبروں کی تردید کر دی۔ انکا کہنا تھا کہ ہم اس وقت حکومت کا حصہ ہیں اور حکومت کے ساتھ ہی کھڑے ہیں۔ ترین گروپ مسلم لیگ ن کا اتحادی ہے اور رہے گا۔

واضح رہے کہ گزشتہ روز پی ٹی آئی کے منحرف اراکین کی جانب سے علیحدہ سیاسی جماعت بنانے کی تیاری کی خبریں زیر گردش تھیں۔ ذرائع کا دعویٰ تھا کہ وسطی اور جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے اہم سیاستدانوں کا نئی سیاسی جماعت میں شمولیت کا امکان ہے۔پنجاب کے حوالے سے جس طرح پہلے یہ تجزیہ کیاجاچکا ہے کہ اسمبلیاں تحلیل ہونے اور عام انتخابات قریب آتے ہی سیاسی شخصیات اپنا فیصلہ کرینگے فی الحال تو پی ٹی آئی کے منحرف اور سرکرہ رہنماؤں نے اس خبر کی تردید کردی ہے کہ وہ نئی جماعت بنانے جارہے ہیں اطلاعات یہ بھی آرہی ہیں کہ چند سیاسی شخصیات ن لیگ جبکہ کچھ پیپلزپارٹی میں جانے کا ارادہ رکھتے ہیں اور ق لیگ بھی پی ٹی آئی کے ساتھ جڑکر یہ توقع کررہی ہے کہ عدم اعتماد کی تحریک میں اٹھنے والے اختلافات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے پی ٹی آئی کے اندر ناراض اراکین کو اپنی طرف لیکر آئے۔ اب پی ٹی آئی کا سیاسی مستقبل کیا ہوگا یہ بہت اہم ہے کیونکہ پی ٹی آئی جس طرز کی سیاست کررہی ہے لگتا ہے اندرون خانہ بعض ارکان جلد پارٹی کو خیرباد بھی کہہ سکتے ہیں بہرحال سیاست ہے کبھی بھی کچھ بھی ہوسکتا ہے۔