بلوچستان کی قوم پرست اورسیاسی جماعتوں کے لیے پاکستان پیپلزپارٹی آئندہ عام انتخابات میں بڑی چیلنج بن کر سامنے آرہی ہے۔ کیچ سے لیکر تفتان تک اہم اضلاع سے قبائلی وسیاسی شخصیات پاکستان پیپلزپارٹی میں شمولیت اختیار کررہے ہیں۔ اس وقت لسبیلہ میں یہ فیصلہ نہیں ہوا ہے کہ بھوتانی یا جام کون پیپلزپارٹی میں جائے گا؟ سردار محمد اسلم بھوتانی نے عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کے وقت یہ بات واضح کردی تھی کہ آصف علی زرداری ان کے قریبی دوست ہیں اور ان سے گہرا تعلق ہے ان کا ساتھ دے رہا ہوں جبکہ انہوں نے یہ بات بھی تسلیم کی کہ جب سے وہ رکن قومی اسمبلی بنے ہیں انہیں جتنے فنڈز وفاق سے ملتے تھے وہ اپنے حلقے میں لگاچکے ہیں۔
سردار محمد اسلم بھوتانی آزاد امیدوار کی حیثیت سے جیت کر قومی اسمبلی کے رکن بنے تاہم انہوں نے کسی جماعت میں شمولیت اختیار نہیں کی البتہ ان کے بھائی سردار محمد صالح بھوتانی بلوچستان عوامی پارٹی میں ہیں۔ اگر لسبیلہ سے بھوتانی یا جام خاندان نے پاکستان پیپلزپارٹی میں شمولیت اختیار کرلی تو اس بات کا قوی امکان ہے کہ پاکستان پیپلزپارٹی سادہ اکثریت لے کر بلوچستان میں حکومت بنانے میں کامیاب ہوجائے گی اوراس وقت زرداری کا مشن بلوچستان کامیابی سے ہمکنار ہوتادکھائی دے رہا ہے کیونکہ اہم قبائل سے تعلق رکھنے والی شخصیات پہلے سے ہی زرداری سے ملاقات کرکے شمولیت اختیارکرچکے ہیں اور اب مزید اطلاعات آرہی ہیں کہ اہم شخصیات حکومتی مدت پوری ہونے کے بعد فیصلہ کرینگے جس میں باپ سے تعلق رکھنے والی خاص شخصیات پیپلزپارٹی کو پیارے ہوجائینگے۔
اب یہاں اہم بات یہ ہے کہ بلوچستان کی قوم پرست جماعتوں سمیت ن لیگ، باپ کیا حکمت عملی اختیار کرینگی جنہیں شاید اتنی اکثریت حاصل نہ ہو جس کی وہ توقع کررہے ہیں کیونکہ سیاسی حالات جس تیزی سے بدل رہے ہیں اس سے یہی تجزیہ کیاجاسکتا ہے کہ پیپلزپارٹی ایک بڑی جماعت بن کر بلوچستان میں ابھر کر سامنے آئے گی۔ قوم پرست جماعتیں پہلے سے اس پوزیشن میں نہیں ر ہیں کہ وہ سادہ اکثریت لے کر حکومت بنائیں بمشکل مخلوط حکومت میں رہ چکی ہیں مگر بدقسمتی اس کی مدت بھی پوری نہیں ہوئی،چند عرصے حکومت کرتی رہیں بعدازاں وہ اپوزیشن بنچوں پر بیٹھ گئیں جس کی ایک طویل تاریخ ہے۔ بہرحال اب بلوچ قوم پرست جماعتوں کی جانب سے موجودہ شمولیت کے حوالے سے ردعمل بھی سامنے آنا شروع ہوگیا ہے کہ قوم پرستوں کے خلاف بڑی سازش کی جارہی ہے مگر اسے کامیاب ہونے نہیں دینگے۔ حکمت عملی کیا ہے، کس طرح سے روکا جائے گا اس کا کوئی روڈ میپ دکھائی نہیں دے رہا۔ یہ سب پر واضح ہے کہ جو شخصیات شمولیت کررہی ہیں۔
وہ اپنے حلقوں میں اثر رکھتے ہیں اورووٹ بینک بھی ان کے پاس موجود ہے اور اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ عرصہ دراز سے یہ حکومتوں کا حصہ رہے ہیں یقینا ان کی شمولیت ایک پیغام بھی ہے کہ آنے والا دورکس کا ہوگا۔ بلوچستان کی سیاسی صورتحال کا منظر نامہ بدل جائے مگر صوبے کی ترقی اور خوشحالی، عوام کی تقدیر کب بدلے گی اس کا کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ 70 سال سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود بلوچستان اپنی ہی معدنیات اور دیگرمیگا منصوبوں سے محروم ہے، ان سے وفاق اور کمپنیاں بھرپورفائدہ اٹھارہی ہیں جبکہ بلوچستان کے حصے میں کچھ بھی نہیں آیا۔ حال ہی میں ریکوڈک معاہدے پر بھی شورشرابہ ضرور ہوا مگر اس سے آگے کچھ ہونا بھی نہیں اور ریکوڈک کو بھی وفاق اور کمپنیوں نے مل کھا لینا ہے اور بلوچستان کے حصے میں کچھ بھی نہیں آنا۔ بہرحال بلوچستان میں پاکستان پیپلزپارٹی تبدیلی لائے گی یہ بڑاسوال ہے چونکہ پیپلزپارٹی خود کو عوامی جماعت کہتی ہے اور عام لوگوں کی تقدیر بدلنے کے حوالے سے بات کرتی ہے دیکھتے ہیں کہ اس بار کیا ہوتا ہے؟