کوئٹہ میں ایک خود کش بم حملے میں کم از کم 14 افراد ہلاک اور 25 زخمی ہوئے ہیں۔ دھماکہ سیٹلائٹ ٹاؤن کے علاقے میں بچوں کو حفاظتی ٹیکے لگانے کے مرکز کے ساتھ ہوا۔ہلاک ہونے والے تمام افراد سکیورٹی اہلکار تھے جو بچوں کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلانے والی ٹیموں کی سکیورٹی پر مامور تھے۔ڈی آئی جی آپریشنز کوئٹہ سید امتیاز شاہ نے صحافیوں کو بتایا کہ دھماکہ خودکش تھا۔صوبائی وزیر میر سرفراز بگٹی کاکہنا ہے کہ دھماکہ اس وقت ہوا جب اس علاقے سے پولیو کی ٹیمیں بچوں کو قطرے پلانے کے لیے روانہ ہونے کی تیاری کررہے تھے۔ان کا کہنا تھا کہ دھماکے میں 14 افرادجاں بحق ہوئے ہیں جن میں پولیس کے 13 اہلکاروں کے علاوہ ایف سی کا ایک اہلکار شامل ہے۔زخمیوں کو فوری طور پر سول ہسپتال کوئٹہ پہنچایا گیا۔سول ہسپتال کوئٹہ کے میڈیکل سپر نٹنڈنٹ ڈاکٹر عبدالرحمان میاں خیل نے بتایا کہ مجموعی طور پر 25 زخمیوں کو سول ہسپتال لایا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ زخمیوں میں سے دو کی حالت تشویشناک ہے۔میر سرفراز بگٹی نے بتایا کہ پولیس اور ایف سی کے اہلکار اس علاقے میں پولیو کی ٹیموں کو سیکورٹی کی فراہمی کے لیے جمع ہوئے تھے۔ ہلاک ہونے والوں میں پولیس کے تین انسپکٹرز اور چار سب انسپکٹرز بھی شامل تھے۔دھماکے میں پولیس اور ایف سی کی دو گاڑیوں ، ایک رکشے کے علاوہ چار دکانوں کو بھی نقصان پہنچا‘وزیراعظم پاکستان محمد نواز شریف اور صدر مملکت ممنون حسین نے کوئٹہ دھماکے کی مذمت کی ہے۔ملک میں انسداد پولیو ٹیموں اور ان کی سکیورٹی پر تعینات پولیس اہلکاروں پر ماضی میں بھی حملے ہوتے رہے ہیں اور ایک اندازے کے مطابق دسمبر 2012 سے لے کر اب تک انسداد پولیو ٹیموں پر ہونے والے حملوں میں 80 کے قریب افراد جاں بحق ہوچکے ہیں۔گذشتہ سال 2015 میں سنہ 2014 کے مقابلے میں انسداد پولیو ٹیموں اور ان کی سکیورٹی پر تعینات پولیس اہلکاروں پر حملوں میں کمی دیکھی گئی تھی۔سنہ 2014 میں ملک میں پولیو کے 306 کیسز سامنے آئے تھے اور حکام کی جانب سے اس کی وجہ انسداد پولیو ٹیموں پر ہونے والے حملوں کو قرار دیا گیاہے۔وزیراعلیٰ بلوچستان نواب ثناء اللہ کا کہنا ہے کہ دہشت گردوں کو کسی صورت نہیں چھوڑا جائے گا،کوئٹہ شہر میں بدامنی کی ایک نئی لہر شروع ہوئی ہے ۔اس طرح کے واقعات سے یقیناًامن وا مان کی صورتحال پر منفی اثرات مرتب ہونگے جس سے شہریوں میں شدید خوف بڑھے گا۔سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ وفاقی وصوبائی حکومت اس طرح کے حملوں کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے ان کے تدارک کیلئے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات اٹھائیں تاکہ دہشت گردی میں اضافہ نہ ہوسکے کیونکہ ماضی کی نسبت کوئٹہ میں خود کش حملوں میں کافی کمی آئی ہے حالیہ حملہ ایک الارم ہے جس کیلئے سیکیورٹی اداروں کی نیٹ ورک کو مزید موثر کرنے کے ساتھ بہترحکمت عملی مرتب کرنی چاہیے جس سے ایسے واقعات کو رونما ہونے سے روکا جاسکے اور شہریوں میں موجود خوف ختم ہوجائے ۔ کوئٹہ میں دہشت گردی کی اس نئی لہر نے عام وخاص کو شدید متاثر کرکے رکھ دیا ہے ‘ بیشتر سیاسی مبصرین اسے خطے میں پیدا ہونے والی صورتحال کے ساتھ بھی جوڑرہے ہیں‘ وزیراعلیٰ نواب ثناء اللہ خان زہری نے بھی موجودہ حالات کے پیش نظر اعلیٰ سطحی اجلاس بھی طلب کیا اور ایسے واقعات کی روک تھام کیلئے سیکیورٹی کی صورتحال کا جائزہ بھی لیا گیا اور مزید سیکیورٹی کوسخت کرنے کی پالیسی بھی مرتب کی جارہی ہے جو یقیناًایک اچھا عمل ہے تاکہ قیمتی جانوں کے ضیاع کو روکاجاسکے اور شہر میں امن وامان کی صورتحال بہتر سے بہتر ہوسکے۔