|

وقتِ اشاعت :   January 19 – 2023

ملک کی اصل معاشی صورتحال کوکبھی بھی کسی حکومت نے تسلیم نہیں کیا کہ ہماری معیشت مکمل کمزور اور لاغر ہے جس کی بڑی وجہ قرضے ہیں اور یہ بات تمام معاشی ماہرین جانتے ہیںکہ کوئی بھی ملک قرض کے سہارے نہیں چل سکتا بلکہ اپنی بہترین معاشی پالیسیوں اور پیداواری صلاحیت سے ہی آگے بڑھتا ہے۔ ملک میں صنعتیںقائم کرنا، پیداواری صلاحیت جس کی مانگ عالمی مارکیٹ سمیت دوست ممالک میں ہو اسے درآمد کرنے پر ڈالر آنے سے معیشت کو آکسیجن ملتی ہے۔ بہرحال اس وقت مسئلہ ملک کے اندر سیاسی انا پرستی کا ہے، گوکہ اس بات میں کوئی شک نہیںکہ 2018ء کے سیاسی تجربات نے سب سے زیادہ نقصان ملکی معیشت کو پہنچایا ایک ایسی حکومت لائی گئی جس کے پاس معاشی اور خارجہ پالیسی کے حوالے سے کوئی وژن نہیں تھا اور نہ ہی اندرون خانہ معاملات کو حل کرنے کے حوالے سے مستقل بنیادوں پر پالیسیاں تھیں جس کی بڑی قیمت عوام کوچکاناپڑرہی ہے۔ آج بھی پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان یہی خواہش لیے بیٹھے ہیں کہ انہیں مکمل سہولت فراہم کرکے دوبارہ اقتدار دی جائے، عمران خان ذہنی اور دلی طور پر خود کو ایک عظیم لیڈر تصور کرتے ہیں اور وہ ملک کے اندر ایک شہنشاہی نظام کے خواہش مند نظر آتے ہیں کیونکہ ان کے بیانات سے یہی تجزیہ اخذ کیاجاسکتا ہے۔

ان کی مثالیں آمرانہ دور کے حکمرانوں کی ہوتی ہیں ہٹلرکو لیکر متعدد مثالیں وہ پہلے ہی دے چکے ہیں۔ البتہ اس وقت ملک میں سیاسی عدم استحکام اپنی جگہ موجود ہے۔ پنجاب اور کے پی اسمبلیاں تحلیل ہوچکی ہیں جبکہ قومی اسمبلی سے پی ٹی آئی کے ارکان کے استعفیٰ منظور کرلیے گئے ہیں۔ دونوں طرف سے سیاسی پلان اے بی سی بنائے جارہے ہیں اور سیاسی گیم اسکورنگ اور برتری کے چکر میں لگے ہوئے ہیں اس کے آگے سوچا ہی نہیں جارہا کہ دنیا کے سامنے کشکول لے کر جارہے ہیں اور قرض پر قرض لے رہے ہیں اس امید کے ساتھ کہ دوبارہ قرض سود سمیت ادا کئے جائینگے ۔دوست ممالک سے قرض بھی رول بیک کرارہے ہیں مگر ہمارے یہاں اپنی کوئی معاشی پالیسی دکھائی نہیں دے رہی اور نہ ہی اس پر بات کی جارہی ہے کہ کسی نہ کسی طرح ملکی معیشت کو بہتر کرنے کے لیے سیاسی استحکام پر توجہ دی جائے بجائے ایک دوسرے کو پچھاڑنے پر وسائل صرف کرتے رہیں اور دوسری جانب معیشت کا بیڑا غرق ہوجائے ۔

اگر یہی سیاسی رویے برقرار رہے تو ملک میں آئندہ پانچ سال کے دوران بھی معیشت کو سہارا نہیں ملے گابلکہ حالات مزید گھمبیر ہو جائیں گے، ایک تو ملک کو ڈیفالٹ کا خطرہ ہے جوکہ فی الحال ٹل گیا ہے لیکن کیا مستقبل میں ایسی صورتحال پیدا نہیں ہوسکتی؟ جس طرح سے سیاسی کھیل میں سب مصروف ہیں اور ملکی حالات پر توجہ نہیں دے رہے ، ملک میں دہشت گردی کی وارداتیں ایک بار پھر سراٹھارہی ہیں جو بڑا چیلنج ہے اس سے کیسے نمٹا جائے ،کیا پلان بنائی جائے یہ تب ہی ممکن ہوگا جب حکومت اور اپوزیشن ایک ساتھ بیٹھ کر معاملات حل کریں گے۔ المیہ تو یہ ہے کہ پنجاب میں نگراں سیٹ کے لیے پرویز الہٰی نے پیشگی کہہ دیا ہے کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے نگراں سیٹ قابل قبول نہیں، حکومت کے ساتھ تو ویسے ہی مذاکرات ناکام ہوگئے ہیں ۔ خدارا ملک پر رحم کیاجائے خاص کر عوام کی حالت زار کو دیکھاجائے جو دہائیوں سے قرضوںکا بوجھ ٹیکس ، مہنگائی ، توانائی بحران کی صورت میںبھگت رہے ہیں۔ اب سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کو ٹف ٹائم دینے کی بجائے معیشت کو سہارا دینے لیے ٹائم دیں جس سے ملک کا بھلا ہو نہ کہ اپنے ذاتی مفادات کوترجیح دی جائے۔