ملک کی موجودہ معاشی وسیاسی صورتحال نے سب کو پریشان کرکے رکھ دیا ہے ، نہ سیاسی سمت درست طرف جارہی ہے اور نہ ہی معاشی سمت کو بہترکرنے کے حوالے سے واضح پالیسی نظر آرہی ہے البتہ حکومت کی جانب سے قرضوں کی جلد آمد کی توقع اور روس سے حالیہ معاہدے سے توانائی بحران کی نوید سناتے ہوئے آئندہ آنے والے دنوں میں بہتری کا دعویٰ کیاجارہا ہے۔
مگر سعودی عرب، آئی ایم ایف مشروط قرض دینے کی بات کرچکے ہیں اور آئی ایم ایف اپنے شرائط کی بنیاد پر قسط ریلیز کرنے پر بضد ہے جس کے بعد جو صورتحال مہنگائی کے حوالے سے سامنے آئے گی اس کا بوجھ عوام برداشت نہیں کرینگے۔
حکومتی نمائندگان یہ بات بتارہے ہیں کہ عوام پر کم سے کم بوجھ ڈالنے کی کوشش کی جارہی ہے ایسا کوئی اقدام نہیںاٹھایاجائے گا جس سے عوام کو مزید مشکلات کا سامنا کرنا پڑے مگر یہ بات سب کے علم میں ہے کہ جب آئی ایم ایف کے شرائط تسلیم کئے جاتے ہیں۔
تو ٹیکسز کی بھرمار شروع ہوجاتی ہے اور مہنگائی کا ایک نیا طوفان کھڑا ہوجاتا ہے جس سے برائے راست عوام ہی متاثر ہوتے ہیںجوپہلے سے ہی معیشت کی کمزور حالت کے باعث انتہائی مشکل زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ موجودہ ملکی معاشی اورسیاسی صورتحال سے کیسے نمٹنا یہ فیصلہ تو سیاستدانوں نے ہی کرنا ہے ۔
اب تو حکومتی جماعت کے ارکان خود اس بات کا اعتراف کررہے ہیں کہ غلط پالیسیوں کی وجہ سے ملک آج اس موڑ پر آکر کھڑا ہوگیا۔ سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کا کہنا ہے کہ موجودہ حکومت کے بروقت فیصلے نہ کرنے سے ملک کا نقصان ہوا۔سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کا کہنا ہے کہ ملک میں مہنگائی اور بے روزگاری بڑھ رہی ہے۔
اس وقت مشکل معاشی حالات ہیں۔ حکومت نے پچھلے چار ماہ میں جو فیصلے نہیں کیے اس سے ملک کو نقصان ہوا۔کوئٹہ میں پریس کانفرنس کے دوران انہوں نے کہا ہے کہ پاکستان کا قرض بڑھ کر51ہزار ارب تک پہنچ گیا ہے۔ آئی ایم ایف سے بات چیت کے حکومتی فیصلے کا خیرمقدم کرتا ہوں۔ امید ہے اب معاشی مسائل حل ہوں گے۔
مفتاح اسماعیل کے ہمراہ پریس کانفرنس میں مسلم لیگ ن کے مرکزی رہنما اور سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کا کہنا ہے کہ گالم گلوچ اور الزام تراشی کی سیاست ملکی مسائل حل نہیں کر سکتی، تمام مسائل کا حل آئین میں موجود ہے۔انہوں نے کہا ہے کہ اس وقت ملک کو سیاسی استحکام کی اشد ضرورت ہے، معیشت، سیاست اور دیگر مسائل کا حل آئین میں موجود ہے، جو خرابیاں 10 سے 20 سال میں پیدا ہوئیں وہ 8 ماہ میں ٹھیک نہیں ہو سکتیں۔ان کا کہنا ہے کہ ملک کے حقائق بہت تلخ ہیں، پاکستان کے پاس مسائل کو کوئی معجزاتی حل نہیں ہے۔
اگر ہم چاہتے ہیں کہ ملکی مسائل حل ہوں تو ہمیں سیاسی مفادات سے بالاتر ہو کر ملکی مفادات کو مد نظر رکھتے ہوئے آئین کے مطابق تمام فیصلے کرنے ہوں گے۔انہوں نے کہا ہے کہ نوازشریف کے ساتھ ہونیوالی ناانصافیوں کا ازالہ ہونا چاہیے،جب الیکشن ہوئے ہم اسی جماعت سے الیکشن لڑ لیں گے۔
بہرحال مفتاح اسماعیل اور شاہدخاقان عباسی اہم عہدوں پر فائز رہ چکے ہیں اور ملکی امور میں چلانے میں ان کا کلیدی کردار رہا ہے ، شاہدخاقان عباسی سابق وزیراعظم اور وفاقی وزیر رہ چکے ہیں جبکہ مفتاح اسماعیل وزیر خزانہ تھے ان کے سامنے تمام تر معاملات واضح ہیں اب یہ خود اس بات کا اعتراف کررہے ہیں کہ انتقامی سیاست سے مزید نقصان ہوگا بجائے گالم گلوچ اور تنقید کے تعمیری سیاست کرتے ہوئے ملک کے مستقبل کے لیے سب کو ساتھ بیٹھ کر بات چیت کرکے آگے چلنا ہوگاجس کا تذکرہ بارہا انہی تحریر میں کیاجاچکا ہے۔
البتہ اب تک سیاسی حالات اس طرح دکھائی نہیں دے رہے ہیں حکومت واپوزیشن کے درمیان جنگ جاری ہے اگر سیاستدانوں نے ان خراب حالات میں بھی ملک کے حوالے سے نہیں سوچا تو یقینا جوابدہ ہی بھی یہی ہونگے اس کا ملبہ وہ کسی اور پر نہیں ڈال سکتے۔