ملک میں سیاسی کشیدگی بدستور جاری ہے، حکومت اوراپوزیشن کے درمیان نگراں حکومت اور دیگر معاملات پر بات بنتی دکھائی نہیں دے رہی ہے۔ پنجاب کے نگراں وزیراعلیٰ محسن نقوی پر عمران خان نے الزامات کی بھرمار شروع کردی ہے،سابق وزیراعظم عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک جب لائی جارہی تھی تو اس دوران سب نے دیکھا کہ عمران خان نے کس طرح اسے ایک بیرونی سازش قرار دیا۔
پہلے انہوں نے ایک جلسے میں ایک پرچی لہراتے ہوئے اسے سائفر کانام دے کر کہا کہ جوبائیڈن انتظامیہ نے تھریٹ کیا ہے کہ اگر عمران خان وزیراعظم رہیں گے تو پاکستان کے لیے اچھا نہیں ہوگا، باقاعدہ سفیر کو بلاکر اسے دھمکی دی گئی تھی یہ بات عمران خان نے ہی کہا تھا۔ پھراس بیانیہ سے یوٹرن لیتے ہوئے عمران خان نے حکومتی سازش پی ٹی آئی کے منحرف اراکین، پی ڈی ایم قیادت پر ڈال دیاکہ باہر سے پیسے آئے اور میری حکومت کو ختم کیا گیا ۔ عمران خان اسی تسلسل کے ساتھ چلتے رہے اور پھر سابق آرمی چیف جنرل (ر) قمرجاوید باجوہ کو مکمل اس کا ذمہ دار قرار دیدیا اور سب کو بتایا کہ مجھے نکالنے میں باجوہ مرکزی کردار تھا،اور اب عمران خان یہ بتارہے ہیں کہ مجھے نکالنے میں مرکزی کردار پنجاب کے نگراں وزیراعلیٰ محسن نقوی تھے ۔ عمران خان ڈھٹائی سے یوٹرن لیتے آرہے ہیں اور پی ٹی آئی کی لیڈر شپ اور کارکنان اسے سیاسی بصیرت اور حکمت سے تعبیرکرتے ہیں۔
ویسے بھی عمران خان خود کو امت مسلمہ کا ایک عظیم لیڈر گردانتے ہیں کہ وہ خاص مقصد کے لیے آئے ہیں اور ایک بہت بڑی تبدیلی لائینگے مگر جب حکومت میں تھے تو انہوں نے سارازور اپوزیشن کو دیوار سے لگانے پر لگادیا، جسے چاہے جیل میں ڈال دیا، کیسز بنائے، چور ،ڈاکو،لٹیرے کے القابات سے نوازتے رہے، ڈائیلاگ کا کوئی راستہ کبھی انہوں نے نہیں نکالااور نتیجہ یہ سامنے آیا کہ ملک میں سیاسی عدم استحکام اور معیشت کی حالت بری ہوکر رہ گئی جس کا خمیازہ آج عوام بھگت رہے ہیں۔ بہرحال یہ عمرانی دور کی باتیں ہیں مگر اب کیا یہی پالیسی موجودہ حکومت کو اپنانی چاہئے جب ملک بہت بڑے معاشی بحران سے دوچار ہے، سعودی عرب، آئی ایم ایف پیسے دینے کے لیے تیار نہیں اور وہ بتارہے ہیں کہ معاشی اصلاحات لائیں اس کے بعدہم پیسے دینگے ،اس کے باوجود بھی معیشت پر کوئی توجہ نہیں دی جارہی بلکہ سیاسی کشیدگی کو مزید ہوا دی جارہی ہے۔ پی ٹی آئی رہنما فواد چوہدری کی جانب سے گزشتہ روز الیکشن کمیشن اور دیگر حکام کو دھمکیاں دینے پر ان کی گرفتاری عمل میں آئی۔گزشتہ روز لاہور میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ ہم الیکشن کمیشن، ان کے ممبران کو، ان کے خاندانوں کو اور یہ جو لوگ ہیں۔
ان کو وارن کرتے ہیں اگر ہمارے ساتھ زیادتیوں کا سلسلہ بندنہ ہوا تو انہیں اس کی قیمت چکانی پڑے گی۔انہوں نے کہا کہ ’ہم نے بڑا صبر اور احتیاط کی لیکن یہ معاملہ چلنے کا نہیں، جو لوگ اس نگران حکومت میں لگ رہے ہیں، چاہے وہ چیف منسٹر ہو، الیکشن کمشنر ہو یا باقی لوگ ، آپ یہاں تین مہینے، چار مہینے یا سال کے لیے ہیں، آپ لوگوں کا پیچھا ہم اس وقت تک کریں گے جب تک قرار واقعی سزا نہ دیں۔واضح رہے کہ اسلام آباد پولیس نے سیکرٹری الیکشن کمیشن کی جانب سے تھانہ کوہسار میں درج کرائے گئے مقدمے کے بعد فواد چوہدری کو لاہور میں رات گئے ان کی رہائش گاہ سے گرفتار کیا۔
فواد چوہدری کی گرفتاری جس بنیاد پر عمل میں لائی گئی ہے وہ اپنی جگہ ہے، قانون اپناکام کرتی رہے مگر گزارش یہی ہے کہ خدارا عمرانی طرز پر حکومت نہ چلائی جائے اور نہ ہی سیاسی انتقامی کارروائیوں پر زیادہ زور دیاجائے ،اس وقت ملک بہت نازک دور سے گزررہا ہے لہٰذا ملک کے مفادات کو ترجیح دیتے ہوئے سیاسی ومعاشی استحکام پر اپنی توانائی صرف کی جائے۔