|

وقتِ اشاعت :   January 18 – 2016

بی این پی کے سربراہ سردار اختر جان مینگل نے محمود خان اچکزئی کی اس تجویز کو نظر انداز کردیا جس میں انہوں نے بلوچ پختون معاہدہ کامطالبہ کیا۔ ویسے بھی سردار اختر مینگل بلوچ قوم کی طرف سے کوئی معاہدہ نہیں کرسکتے تھے اور محمود خان اچکزئی کی تجویز انتہائی غیر مناسب تھی۔ اسلام آباد میں آل پرٹیز کانفرنس کے دورانپختون رہنماؤں نے زور و شور کے ساتھ اقتصادی راہداری منصوبے کو ہدف بنایا اور پورے ایوان نے ان سے اتفاق کیا۔ ان میں مسلم لیگ ن کے وفاقی وزراء اور پارٹی عہدیدار بھی موجود تھے۔ یہ پختون قوم پرستوں اور مذہبی رہنماؤں کی بڑی کامیابی تھی جہاں تک بلوچ عوام کا تعلق ہے گوادر کو کسی اقتصادی راہداری کی ضرورت نہیں۔ گوادر ساحل مکران پر درجنوں بندرگاہوں میں سے صرف ایک ہے۔ جبکہ آبنائے ہرمز یا بندر عباس سے لے کر کراچی تک مکران ساحل کے مالک اور خود مختار بلوچ ہیں۔ کوئی اور اس کا دعویدار نہیں ہے اس لئے گوادر کے لئے اقتصادی راہداری کی بالکل اہمیت نہیں ہے۔ پختون عوام کے لئے اس کی اہمیت ضرور ہے اس لئے بلوچ ان کی رائے کی بلا کسی شرط کے حمایت کررہے ہیں جیسا کہ انہوں نے کالا باغ ڈیم کی تعمیر کے دوران کیا تھا۔ گوادر کے ساتھ ساتھ اس سے بھی بڑی بندرگاہ ایرانی بلوچستان میں واقع ہے اس کی تعمیر اور ترقی ہورہی ہے۔ صرف چاہ بہار کے قرب و جوار اور بندرگاہ کے اندر 50ارب ڈالر کی سرمایہ کاری صرف ایک شہر میں ہورہی ہے۔ چاہ بہار سے افغانستان، تاجکستان اور چین تک سڑک اور ریلوے لائن تعمیر کی منصوبے کا حصہ ہے۔ بڑی سرمایہ کاری ایران کررہا ہے جبکہ تاجکستان اور چین کے درمیان ریل اور سڑک چین تعمیر کرے گا۔ یہ تمام علاقے متنازعہ نہیں ہیں، اس خطے میں کوئی تنازعہ نہیں ہے کوئی وجہ نہیں کہ چین گوادر سے زیادہ چاہ بہار کی ترقی میں دلچسپی رکھتا ہو اور وہاں زیادہ سرمایہ کاری کرنے کا ارادہ رکھتا ہو اور پنجاب میں صرف سرمایہ کاری جبکہ حقیقی معنوں میں اقتصادی راہداری کا روٹ چین، تاجکستان، افغانستان اور ایران ہے۔ ایران ایک دولت مند ملک ہے اور منصوبوں کی تعمیر کا زیادہ بوجھ اٹھانے کے قابل ہے جبکہ ہم پاکستان میں صرف اور صرف چین کی سرمایہ کاری سے ملک کے چاروں صوبوں کو ترقی دینا چاہتے ہیں جو ایک مشکل کام ہے یہ سب کام چین صرف ہماری دوستی کی خاطر نہیں کرے گا اگر معاملات میں ٹھہراؤ نہیں آیا تو چین پاکستان میں سرمایہ کاری نہیں کرے گا گوادر کی بندرگاہ ابھی تعمیر کے ابتدائی مراحل میں ہے جبکہ چاہ بہار میں بندرگاہ کام کررہا ہے اور ایران کے لئے 10ارب ڈالر صرف تجارتی راہداری سے کمارہا ہے چاہ بہار میں ابھی تک سرمایہ دار ممالک 50ارب ڈالر کے منصوبوں پر عمل کررہے ہیں۔ وہاں توانائی کا کوئی بحران نہیں ہے۔ تیل اور گیس وافر مقدار میں دستیاب ہے اور کم ترین قیمت پر اس لئے دنیا کے ممالک گوادر کے بجائے چاہ بہار کو ترجیح دیں گے۔ سیکورٹی کا زبردست انتظام ہے۔ وہاں کے بلوچ عوام حکومت کے ساتھ خوش ہیں کم سے کم عوام اور ایرانی حکومت کے درمیان بلوچ تنازعہ نہیں ہے جو ہمارے ملک میں ہے۔