|

وقتِ اشاعت :   January 20 – 2016

اسلام آباد : ایوان بالا (سینیٹ) میں قائد ایوان راجہ ظفر الحق نے کہا ہے کہ پاک چین اقتصادی راہداری کے حوالے سے منصوبہ بندی کمیشن نے تمام منصوبوں کو اپنی ویب سائٹ پر شائع کر دیا ہے جو کہ عام عوام کی دسترس میں ہیں، اب کوئی یہ کہہ نہیں سکتا ہے کہ معلومات نہیں دی گئیں ، آج ایک بات اور کل دوسری بات کی گئی، وزیراعظم کی سربراہی میں سٹیئرنگ کمیٹی بنائی گئی ہے جس میں تمام سیاسی جماعتوں سمیت صوبوں کی بھی نمائندگی موجود ہے، تمام سیاسی جماعتوں کے قائدین نے میڈیا کے سامنے اس اہم منصوبے کی افادیت کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے تحفظات پر پیش رفت کے حوالے سے قوم کو آگاہ کیا ہے، اگر اب بھی کسی کے تحفظات ہیں تو تحریری طور پر دیئے جائیں تا کہ انہیں حل کیا جا سکے، قبل ازیں تحریک التواء پر پریزائیڈنگ آفیسر محسن لغاری نے کہا کہ پارلیمان کو بائی پاس کر کے فیصلے نہ کئے جائیں تمام قومی امور پر اس ایوان میں مشاورت کی جائے، اقتصادی راہداری معاملے پر تحریک التواء پر بحث موخر کرنے یک راجہ ظفر الحق کی درخواست مسترد کر دی گئی۔ منگل کو سینیٹر مولانا عطاء الرحمان اور دیگر سینیٹرز کی تحریک التواء پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے پاکستان چین اقتصادی راہداری کے مغربی روٹ کے بارے خیبرپختونخوا اور بلوچستان کے عوام کی تشویش کے حوالے سے تحریک التواء پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے سینیٹ میں قائد حزب اختلاف اعتزاز احسن نے کہا کہ فیصلے 2 افراد میں ہوتے ہیں اور پارلیمان کی بالادستی کو مسترد کیا جا رہا ہے، تمام ملکی معاملات کا حل پارلیمان میں موجود ہے، ہم سب موجود تھے مگر اسایوان نے فیصلہ کرنا ہے جو فیصلے پارلیمان سے باہر ہوئے ان کی توثیق کی جاتی ہے، مگر اس ایوا ن میں بحث سے کسی مسئلے کو روکا نہیں جاسکتا۔ سینیٹر عثمان سیف اللہ نے کہا کہ میں نہ تو کسی پارٹی کا لیڈر ہوں اور نہ ہی مجھے کسی اے پی سی میں بلایا گیا ہے، کہا جاتا ہے قومی معاملات پر سیاست نہیں کرنی چاہیے، سیاست کوئی ڈرٹی بزنس نہیں ہے، بلکہ سیاست کے ذریعے مفاہمت اور بحث سے مسائل کو حل کیا جاتا ہے، اگر تمام معاملات سے حکومت پہلے ہی آگاہ کر دیتی تو تنازعات جنم ہی نہ لیتے۔ سینیٹر کلثوم پروین نے کہا کہ چھوٹے صوبوں کے تحفظات تھے اور تمام صوبوں کے وزرائے اعلیٰ بھی وزیراعظم کی زیر صدارت ہونے والی اے پی سی میں موجود تھے، جس میں جو بھی قائدین نے فیصلے کئے ہمیں وہ منظور ہیں۔ سینیٹر میاں عتیق الرحمان نے کہا کہ پوری قوم تذبذب میں مبتلا ہے کہ یہ اقتصادی راہداری کو متنازع بنایا جا رہا ہے، حکومت کی جانب سے اس پر صبح ایک بیاناور شام کو دوسرابیان دیا جاتا تھا، وزیراعظم کا اس اہم مسئلے کی خود نگرانی کرنا خوش آئند ہے، سیکرٹری مواصلات کا رویہ درست نہیں ہے، اس منصوبے میں انڈسٹریل زون بنائے جا رہے ہیں مگر اس پورے منصوبے کی فزیبلٹی رپورٹ تیار نہیں کی گئی، اس منصوبے کی اہمیت بہت زیادہ ہے اور ملک کا مستقبل اس سے وابستہ ہے۔ سینیٹر میر کبیر نے کہا کہ جو بھی پاکستانی اس اقتصادی راہداری منصوبے کو نہیں مانتا وہ درحقیقت پاکستانی ہی نہیں، ہمیں نہیں معلوم کہ اقتصادی راہداری ہے کیا، ہمیں کبھی ایک نقشہ تھما دیا جاتا ہے کبھی دوسرا نقشہ اور بابو صاحبان ہمیں گھماتے ہیں کہ سمجھ ہی نہیں آتا، یہ منصوبہ ہے کیا، سینیٹ کی راہداری کے حوالے سے سیکرٹری مواصلات نے بلائے ہوئے مہمانوں کے حوالے سے ایسے الفاظ استعمال کئے جو ناقابل بیان ہیں، گوادر پورٹ کی آمدن اور صوبے کا اس میں حصہ کے متعلق بتایا جائے، پورٹ میں کھادکی بوری اتارنے کا حق نہیں ہے، مزدور بھی باہر سے منگوائے جاتے ہیں۔ سینیٹر عثمان کاکڑ نے کہا کہ اقتصادی راہداری پر آج ساری دنیا بحث کر رہی ہے، ملک کا ہر مسئلہ اس ایوان میں آنا چاہیے، مرکزی حکومت نے 28 مئی کی اے پی سی میں ہونے والے فیصلوں پر عملدرآمد نہ ہونے کی وجہ سے 15 جنوری کو اے پی سی ہوئی، مرکزی حکومت پر اب کسی کا اعتماد نہیں رہا، صوبوں اور وفاق کے درمیان اعتماد کا مسئلہ ہے، توانائی پر 35 سو ارب خرچ ہوئے ہیں، اور روٹ پر 800 ارب روپے خرچ ہو رہے ہیں اور بلوچستان میں کوئی توانائی کا منصوبہ شامل نہیں ہے۔ سینیٹر سسی پلیجو نے کہا کہ وزیر اعظم وزیراعظم کی صدارت میں ہونے والی اے پی سی میں سندھ کی نمائندگی نہیں تھی، 10 ماہ گزرنے کے باوجود مشترکہ مفادات کو نسل کا اجلاس نہیں ہوا۔ سینیٹر اعظم سواتی نے کہا کہ اقتصادی راہداری پاکستان کا مستقبل ہے اور اس ملک کو بچانے کی بات کریں ، تبھی اس منصوبے کے ثمرات حاصل کئے جا سکتے ہیں۔ سینیٹر حافظ حمد اللہ نے کہا کہ اقصادی راہداری منصوبہ ملک کے لئے معاشی انقلاب کا آغازہے ۔کوئی سیاسی جماعت اس منصوبے سے اختلاف نہیں رکھتی۔ پچھلے دور حکومت میں صرف ایک ہی روٹ تھا وہ مغربی روٹ تھا مگر بعد میں اس میں سنٹرل روٹ اور مشرقی روٹ کو لایاگیا ہے ۔ اس کاجواب کسی کے پاس نہیں ، تنازعات تب جم لیتے ہیں جب حقائق چھپائے جائیں ۔بلوچستان میں فیصلے بندوق اور بارود سے کئے جاتے ہیں جسکی وجہ سے محرومیاں کم نہیں ہوتیں ۔نواب اکبر بگٹی کے قتل کے فیصلے میں ایک شخص کو بری کیا گیا جو اڑھائی سال تک عدالتہی نہیں آیا ، سینیٹر ڈاکٹر جہانزیب جمالدینی نے کہا کہ ہمیں یہ یقین ہے کہ موجودہ حکومت ہمارے مسائل حل کرے گی ۔ہم نے 46ارب ڈالر سے زائد کے قرضے لئے مگر معاشی انقلاب نہیں آیا خوشحالی تب آئیگی جب چھوٹے صوبے خوشحال ہونگے، بلوچستان میں توانائی تب آئیگی جب چھوٹے صوبے خوشحال ہونگے ۔بلوچستان میں توانائی کا اہم مسئلہ ہے ۔ اس راہداری میں توانائی کے منصوبوں میں بلوچستان کو بھی حصہ دیا جائے ۔ بیرسٹر محمد علی سیف نے کہا کہ جب بھی ملک میں ترقی کے منصوبے شروع ہوتے ہیں تو اس کے مضمرات بھی ہوتے ہیں ۔ بلوچستان کے عوام کو ان کی قدرتی گیس نہیں دی جاتی ۔ معلومات کی مکمل فراہمی نہ کئے جانے سے تحفظات اور شکوک وشبہات جنم لیتے ہیں ۔