اسلام آباد: اراکین پارلیمنٹ نے مطالبہ کیا ہے کہ کالعدم تحریک طالبان کے ساتھ مذاکرات اور دہشتگردانہ واقعات کے تناظر میں سکیورٹی حکام کی جانب سے بریفنگ دی جائے،امن وامان کی صورتحال پر بحث کے دور ان وزیرداخلہ کو ایوان میں ہوناچاہیے، حکومت کو پالیسی بیان دینا چاہیے،8 سے 10 ماہ سے کے پی میں دہشتگردوں کا راج ہے،حکومت کی رٹ نظر نہیں آ رہی،جب اکبر بگٹی کو قتل کیا گیا تو کہا گیا چند دن ٹائر جلیں گے صورتحال بہتر ہوجائیگی مگر آج تک بلوچستان میں صورت حال معمول پر نہیں آسکی،احسان اللہ احسان کس طرح گیا۔
کس طرح بنوں جیل توڑا گیا،ٹی ٹی پی کس طرح دوبارہ سوات میں آئی،سی ٹی ڈی کے دفتر پر کیسے حملہ ہوا؟،ان تمام واقعات کی انکوائری ہونی چاہیے،نیشنل ایکشن پلان کے بیس نکات پر عملدرآمد کرنا ہوگا،نیشنل ایکشن پلان پر صوبہ اور وفاق میں کتنا عمل ہوا؟ جواب میں خانہ خالی نظر آئے گا،معاشی دہشت گردی کا حساب کون دے گا؟جبکہ وزیر مملکت عبد الرحمن کانجو نے کہا ہے کہ وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ ایوا ن میں پالیسی بیان دینگے۔ پیر کو پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس میں امن وامان کی صورتحال پر بحث جاری رہی۔بحث میں حصہ لیتے ہوئے اسلم بھوتانی نے کہاکہ حب اور لسبیلہ میں 45 ہزار ایکڑ زمین رات کے اندھیرے میں سیمنٹ فیکٹری کو دی گئی،ہمارے لوگ اس پر سراپاً احتجاج ہیں انہوں نے کہاکہ یہ صوبائی معاملہ ہے اس کو عدالتوں کے ذریعے دیکھیں گے مگر احتجاج ریکارڈ کروا رہا ہوں۔
انہوں نے کہاکہ دہشت گردی کے ہم بھی خلاف ہیں اور پوری دنیا بھی خلاف ہے،دہشت گردی کو کوئی اچھا نہیں سمجھتا،ہم کسی اور سپر پاور کی جنگ میں کود پڑے اور یہ ظاہر ہے کہ ہم کسی کو ماریں گے تو اگلا بھی ہمیں پھولوں کے ہار نہیں پہنائے گا۔ انہوں نے کہاکہ بلوچستان کچھ عرصے پہلے بہت برامن تھا،نواب اکبر بگٹی کو شہید کیا گیا،آئی ایس آئی کا اس کردار نہیں تھا مگر ایم آئی کا کردار تھا،پرویز مشرف کو انہوں نے بھڑکایا کہ یہ ریاست میں ریاست کا کام کر رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ کیا ہوگا دو چار دن ٹائر جلیں گے اور سب ختم ہو جائیگا۔ انہوں نے کہاکہ بلوچستان کے لوگوں کو بہت تکلیفیں دی گئیں،بلوچستان کے لوگ حق مانگتے ہیں تو انہیں غدار کہا جاتا ہے،بلوچستان وسائل سے مالا مال ہے مگر اس کے عوام کو کوئی فائدہ نہیں دیا گیا۔ انہوں نے کہاکہ فلور پے بتاتا ہوں کہ نہ سی پیک چلے گا نہ ریکوڈک چلے گا،یہ منصوبے بلوچستان کی عوام کی مرضی کے خلاف ہے،کیا گوادر کے لوگوں کو پانی میں ملا ہے۔ انہوں نے کہاکہ سی پیک کے نام پر ہمیں جتنا تذلیل کیا جا رہا ہے شاید کہیں نہیں ہوتا۔ انہوں نے کہاکہ بلوچستان کے لوگوں کے ساتھ وہ ہوتا ہے جو مقبوضہ کشمیر میں لوگوں کے ساتھ ہو رہا ہے۔ انہوں نے کہاکہ جب ہم تقریریں کرتے ہیں تو وہ اور زیادہ اس طرح ظلم کرتے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ ڈی جی رینجرز کو خط لکھا مگر کوئی عمل نہیں ہوا۔
انہوں نے کہاکہ حب سے 30 کلومیٹر میں بہت سی چیک پوسٹیں ہیں۔ انہوں نے کہاکہ ہمیں پہلے سے پتہ ہوتا ہے وزیر اعلی کس کو بنا رہے ہیں،ہمارے ایک ایم این اے کی جگہ کے اوپر قبضہ کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہاکہ چائنیز کمپنیز والے چیٹرز ہیں،خرم دستگیر خان فون ہی نہیں اٹھاتے۔ انہوں نے کہاکہ جو ایئرپورٹ ادھر بن رہا ہے وہ کوئی اور سپرپاور ہم سے لے لے گی۔ انہوں نے کہاکہ ریکوڈک پر تیس سال میں ہر کسی نے اپنی جیبیں بھریں،ایف سی اور کوسٹ گارڈز کا نام آتا ہے تو سب کے ہاتھ کانپنے لگتے ہیں۔
یہ سب رانا ثناء اللہ کے نیچے آتے ہیں مگر آپریٹ کہیں اور سے ہوتا ہے،وزیراعلی بلوچستان سے کہتا ہوں کہ اپنی کابینہ میں لوگ رکھیں مگر شہریت ضرور چیک کر لیں۔ انہوں نے کہاکہ سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے دس فوجی افسران کو نوکری سے برخاست کیا،یہ سب لوگ ایف سی بلوچستان میں ملازمت کر کے آئے تھے،ان کو ان کے آرمی چیف نے خود نوکری سے برخاست کیا۔ راجہ پرویز اشرف نے کہاکہ کسی انفرادی شخص کا معاملہ ہو تو ادارے کو بلیم نہیں کرنا چاہیے۔ بحث میں حصہ لیتے ہوئے سینیٹر رضا ربانی نے کہاکہ دہشت گردی پر بات ہو رہی ہے،وزیر داخلہ اور وزیر پارلیمانی امور کا یہاں پر ہونا ضروری ہے،پہلے یہاں پر حکومت کو پالیسی بیان دینا چاہیے۔ انہوں نے کہاکہ عسکری قیادت کو بھی یہاں موجود ہونا چاہیے،اگر اجلاس ان کیمرا رکھنا چاہتے ہیں تو ان کیمرا کرلیں،پہلے بریفنگ دی جائے کہ ٹی ٹی پی سے معاملات کہاں تک پہنچے۔رضا ربانی نے کہاکہ ڈی جی آئی ایس آئی اور ڈی جی ایم او پارلیمنٹ کے ان کیمرہ اجلاس میں بریفنگ دیں،ٹی ٹی پی سے مذاکرات پر بھی اعتماد میں لیا جائے،پالیسی بیان آنے کے بعد ہی ارکان بہتر تجاویز دے سکیں گے۔وزیر مملکت داخلہ عبدالرحمان کانجو نے کہاکہ وفاقی وزیرداخلہ رانا ثناء اللہ گوادر گئے ہوئے ہیں،وفاقی وزیر داخلہ خود آکر پالیسی بیان دیں گے۔ سعد وسیم نے کہاکہ باقی ایجنڈا آئٹم پر بھی بات ہونی چاہیے۔
اگر دہشتگردی پر بات ہونی ہے تو میں سمجھتا ہوں وزیر یہاں ہونا چاہیے۔ جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمدنے کہاکہ 8 سے 10 ماہ سے کے پی میں دہشتگردوں کا راج ہے،حکومت کی رٹ نظر نہیں آ رہی، کاروباری طبقہ وہاں سے بھاگ رہا ہے۔انہوں نے کہاکہ مئی سے دسمبر تک 376 حملے کے پی میں ہوئے ہیں۔انہوں نے کہاکہ پشاور مسجد دھماکہ میں سو ست زائد بے گناہ نمازی شہید ہوئے۔ انہوں نے کہاکہ عام آدمی کے جان و مال کو بھی کوئی تحفظ حاصل نہیں۔انہوں نے کہاکہ اتنا بڑا دھماکہ ہوا کسی نے آج تک استعفے تک نہیں دیا۔ انہوں نے کہاکہ فوج پولیس اور عدلیہ کو یہ قوم 2 ہزار ارب روپے دے رہی ہے،قوم کو نہ تحفظ حاصل ہے نہ انصاف مہیا کیا جارہا ہے۔ انہوکں نے کہاکہ خیبرپختونخوا کے عوام لاشیں اٹھا اٹھا کے تھک چکے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ دو ہزار علماء نے مسلح جدوجہد اور دہشت گرد حملوں کے خلاف فتویٰ دیا۔ انہوں نے کہاکہ نیشنل ایکشن پلان پر سیاسی جماعتوں نے اتفاق کیا۔ انہوں نے کہاکہ احسان اللہ احسان کس طرح گیا؟کس طرح بنوں جیل توڑا گیا،ٹی ٹی پی کس طرح دوبارہ سوات میں آئی،سی ٹی ڈی کے دفتر پر کیسے حملہ ہوا؟،ان تمام واقعات کی انکوائری ہونی چاہیے۔ انہوں نے کہاکہ علی وزیر کے تمام کیسز ختم ہوگئے لیکن جیل کے اندر ہیں،عدالتوں نے ضمانت دی لیکن پروڈکشن آرڈر جاری کیوں نہیں کرتے۔ انہوں نے کہاکہ سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ سیکیورٹی دینے کے بجائے سیاست میں ملوث ہیں۔ وفاقی وزیر شازیہ مری نے کہاکہ مشترکہ اجلاس بالخصوص خیبرپختونخوا مین دہشت گردی کے حوالے سے ہے۔
اگر آج ہماری تمام تر توجہ دہشت گردی کے خاتمہ پر ہوگی تو کامیابی ملے گی۔ انہوں نے کہاکہ ہمارے معاشی مسائل سمیت دیگر مسائل تب ہی حل ہونگے جب امن و امان کی صورتحال ہوگی۔ انہوں نے کہاکہ دہشتگردی کے اسطرح کی سرگرمیوں کے حوالے سے ایک ان کیمرہ بریفنگ ہونی چاہیے۔ انہوں نے کہاکہ حساس معلومات اور بریفنگ کے حوالے سے ان کیمرہ سیشن کی نشست ضروری ہے۔ انہوں نے کہاکہ انتہاپسندی براہ راست دہشتگردی سے جڑی ہوئی ہے،انتہا پسندی سے جڑے مائنڈ سیٹ کا خاتمہ ہی دہشت گردی کا خاتمہ ہے۔ انہوں نے کہاکہ یہ کہنا کہ اسطرح کے واقعات کی نظریاتی سپورٹ نہیں غلط ہے،اگر ہمارے پاس مثبت دماغ ہوتے تو ہماری بچی ملالہ آج پاکستان میں بیٹھی ہوتی۔انہوں نے کہاکہ نوجوانوں کی پے در پے اسطرح کے واقعات کے ساتھ نظریات جڑے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ ضرورت اس امر کی ہے اتحاد تنظیم اور ایمان کو لاگو کیا جائے۔ انہوں نے کہاکہ میری درخواست ہے اپنے آپ کو اندھیرے میں نہ رکھیں۔شازیہ مری نے کہاکہ اے پی ایس اور دیگر سانحات پر ہر پاکستانی کا دل خون کے آنسو روتا ہے،کب ہم یہ کریں گے کہ اپنے بچوں کو امن کا سبق سکھائیں گے۔ انہوں نے کہاکہ نیشنل ایکشن پلان کے بیس نقاط پر عملدرآمد کرنا ہوگا۔ شازیہ انہوں نے کہاکہ انسان کو ہمیشہ سچ بولنا چاہیے ہمیں اپنی پارلیمنٹ میں بھی سچ بولنا ہوگا،حکومت کی زمہ داری ہے کہ وہ بھی تمام معاملات طر سچ بولے،صوبائی حکومت کا کام ہے کہ وہ دہشتگردی پر پارلیمنٹ کوسچ بتائے۔سینیٹر عرفان صدیقی نے کہاکہ ہم نے خون میں مساجد، امام بارگاہیں اور کوچہ و بازار لتھڑے ہوئے دیکھے اور آج بھی وہی حال ہے۔ انہوں نے کہاکہ ہم نے یہ جذباتی تقاریر پہلے بھی کی تھیں مگر یہ دہشت گردی کے مسئلے کا حل نہیں۔ انہوں نے کہاکہ میں کسی پر تنقید نہیں کرنا چاہتا مگر جو صوبہ سب سے زیادہ متاثر ہوا اس صوبے میں کیا ہوتا رہا۔ انہوں نے کہاکہ دہشت گرد اسلام سے کوئی وابستگی رکھتے ہیں نہ انسانیت سے،نیشنل ایکشن پلان پر صوبہ اور وفاق میں کتنا عمل ہوا؟ جواب میں خانہ خالی نظر آئے گا۔ انہوں نے کہاکہ جو صوبہ سب سے زیادہ دہشت گردی کا گڑھ بنا ہوا ہے وہاں دس سال کس کی حکومت تھی؟وہاں کس کو فنڈز ملتے رہے کہاں خرچ ہوتے رہے کس سے پوچھیں۔ انہوں نے کہاکہ کوئی کمیٹی بیٹھے اور پوچھے ان لوگوں کے بارے میں یہ کون لوگ ہیں؟۔
انہوں نے کہاکہ تحریک طالبان نے ایک کمیٹی بنائی اس میں ایک رکن عمران خان تھا،رستم شاہ مہمند ہمارے ساتھ طالبان کا نمائندہ بن کر مذاکرات کرتا رہا۔ انہوں نے کہاکہ چار سالوں میں کیا ہوا کوئی مذاکرات ہوئے ایوان کو اعتماد میں لیا گیا،ہمیں سنجیدگی کے ساتھ لائحہ عمل بناناہوگا۔ انہوں نے کہاکہ عمران خان نے سیاسی انتقام میں سارا دور اقتدار گزار دیا،دونوں ہاؤسز کی کمیٹی بنائی جائے جو مسئلہ کا حل تجویز کرے۔انہوں نے کہاکہ وزیراعظم آزاد کشمیر کی جانب سے گالیاں دینا افسوسناک ہے،وزیراعظم صحافیوں کو گالی دیگا تو دوسرے اہلکار کیا کریں گے،اس معاملے پر کمیٹی بنائی جانی چاہیے،کیا ہم گالیاں کھاتے رہیں گے۔سینیٹر ہدایت اللہ نے کہاکہ اے این پی کا ہمیشہ مطالبہ رہا ہے کہ دہشتگردوں کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے،اگر دہشت گردوں کے خلاف کارروائی نہ کی تو ملک نہیں بچے گا۔ انہوں نے کہاکہ نیشنل ایکشن پلان بھی یہی مطالبہ کرتا ہے۔ انہوں نے کہاکہ 400 ارب دس سالوں میں دہشتگردی کے خلاف کے پی کے میں استعمال ہوا،سابقہ حکومت نے کے پی کے میں پولیس کو کمزور جبکہ دہشتگردوں کو مظبوط کیا۔ انہوں نے کہاکہ کے پی کے کے شہداء پر سیاست کی جارہی ہے،دس سال سے پی ٹی آئی برسراقتدار رہی مگر شہیدا سے تعزیت نہیں کی،یہاں پر مساجد،تعلیمی ادارے اور جنازے بھی محفوظ نہیں،کے پی کے کے لوگ دہشتگردی سے تھک چکے ہیں۔
انہوں نے کہاکہ جنرل فیص اینڈ کمپنی نے کے پی کے میں جو باردو بچھایا اس کا حساب دینا ہوگا۔ مفتی عبد الشکور نے کہاکہ ہمیں دہشتگرد فون کرکے ڈراتے ہیں،دہشتگردی کے حقیقی عوامل ظاہر نہیں کرسکتے۔ انہوں نے کہاکہ جس علاقے میں ہم رہتے ہیں وہاں دہشتگردی سے متعلق بات کرنا اپنے پر کلہاڑی چلانے کے مترادف ہے۔ انہوں نے کہاکہ پاکستان کیلئے موجودہ حالات میں معاشی دہشت گردی زیادہ خطرناک ہے،انتہائی اور سخت مہنگائی ہے،میں برداشت نہیں کرسکتا،عام عوام مہنگائی کو برداشت نہیں کرسکتے،اس معاشی دہشت گردی کا حساب کون دے گا،اس ایوان کی توہین آپ سے پہلے والے سپیکر نے کی۔ انہوں نے کہاکہ عمران خان نے جو ڈرامہ رچایا اس پر احتساب نہیں ہونا چاہیے کیا،آج عمران خان نے خود اعتراف کیا کہ امریکی سازش کے زریعے حکومت ختم نہیں ہوئی۔
انہوں نے کہاکہ عمران خان باجوہ کی مدت ملازمت بڑھانے کا ذمہ دار ہے،کیا معاشی دہشت گردی کا زمہ دار عمران خان اور انکے سابقہ وفاقی وزیر خزانہ نہیں تھے،پاکستان کو معاشی دہشت کے زریعے آخری دہانے ہر کھڑا ہے انہوں نے کہاکہ کرپشن سب سے بڑا ناسور ہے،آئندہ جج مہنگا ہو گا،حج میرا وجہ سے نہیں پاکستانی روپیہ کی بدحالی سے مہنگا ہوگا۔ ایم کیو ایم کی کشور زہرہ نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہاکہ اس وقت ترکی اور شام میں زلزلہ آیا ہر پاکستانی دکھی ہے،ترکی نے ہر مشکل وقت میں پاکستان کا ساتھ دیا، ہمیں بھی برادر ملکوں کا ساتھ دینا ہوگا۔ انہوں نے کہاکہ شام پر بین الاقوامی پابندیوں کے باعث امدادی سرگرمیوں میں مشکلات ہیں،کشور زہرہ کے خطاب کیساتھ پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس (آج) منگل شام چار بجے تک ملتوی کردیا