|

وقتِ اشاعت :   January 23 – 2016

کوئٹہ : بلوچستان نیشنل پارٹی واحد قومی جماعت ہے جس نے آل پارٹیز کانفرنس میں بلوچوں کے مسائل کو اجاگر کیا پارٹی اقتصادی روٹ کی ہرگز مخالف نہیں اے پی سی پیش کی گئی قراردادوں جن پر تمام سیاسی جماعتوں نے اتفاق کیا تھا ان پر عملدرآمد کو یقینی بنانے کیلئے اقدامات کئے جائیں تاکہ اس کے مثبت اثرات مرتب ہو سکیں گوادر کے بلوچوں کو درپیش مسائل فوری حل کرنے کی ضرورت ہے تب ہی ترقی و خوشحالی کا خواب شرمندہ تعبیر ہو گا بلوچستان کے مخدوش حالات اور ساڑھے پانچ لاکھ مہاجر خاندانوں کی موجودگی میں مردم شماری قابل قبول نہیں نہ ہی قانون تصور ہونگے ان خیالات کا اظہار بلوچستان نیشنل پارٹی کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات آغا حسن بلوچ ایڈووکیٹ نے رضا جان شاہی زئی کی قیادت میں چاغی اور کوئٹہ کے وفود سے ملاقاتوں میں کیں اس موقع پر انہوں نے کہا کہ نادرا کی حالیہ پیش کی جانے والی رپورٹ جس میں اس بات کا انکشاف کیا گیا تھا کہ 60فیصد بلوچوں کوشناختی کارڈ زکا اجراء اب تک ممکن نہیں ہو سکا ہے لاکھوں کی تعداد میں افغان مہاجرین کی موجودگی ،مخدوش صوبائی صورتحال میں مردم شماری بلوچوں کے خلاف گھناؤنی اور منظم سازش ہوگی مرکزی حکومت حالات کا ادراک کرتے ہوئے درج بالا مسائل کو حل کرنے کے باوجود مردم شماری کروائے انہوں نے کہا کہ بلوچستان کی سابقہ دور حکومت میں افغان مہاجرین سے متعلق ایک واضح پالیسی نہیں اپنائی گئی جبکہ وفاقی اور دیگر تین صوبوں میں افغان مہاجرین کو باعزت طریقے سے اپنے وطن بھیجنے کے حوالے سے واضح پالیسی ہے لیکن بلوچوں میں گروہی اور ذاتی مفادات کی خاطر غیر ملکی کو بلوچستان کی آبادی کا حصہ بنانا چاہتے ہیں ساڑھے پانچ لاکھ مہاجرین بلوچوں کیلئے نہیں بلکہ بلوچستانیوں خصوصا پشتونوں کیلئے مسائل پیدا کریں گے انہی مہاجرین کی وجہ سے مذہبی جنونیت ، انتہاء پسندی ، فرقہ واریت جیسے مسائل جنم لے رہے ہیں انہوں نے کہا کہ بلوچستان ہمارے آباؤ اجداد کی سرزمین ہے انہوں نے قربانیاں دے کر اپنی سرزمین کی سامراج سے حفاظت کی ہے ہر دور کے اغیار کو شکست سے دوچار کیا اور سیاسی و شعوری اور فکری سوچ کے ذریعے بلوچستان میں بلوچوں کو باہم متحد رکھنے کی ہر دور میں کوششیں کی گئیں اور قربانیاں دی گئیں آج بلوچستان مختلف قسم کے سازشوں کا شکار ہے ہم سمجھتے ہیں کہ مردم شماری جو رواں سال ہونے جا رہی ہے ہم حکمرانوں پر واضح کرنا چاہتے ہیں کہ بلوچستان کے بیشتر علاقوں مکران ڈویژن ، کوہلو ، آواران ، ڈیرہ بگٹی ، جھالاوان ، بارکھان اور نصیر آباد سمیت دیگر بلوچ علاقوں سے بیشتر لوگ بلوچستان کے مخدوش حالات کی وجہ سے اپنے علاقوں سے دوسرے علاقوں میں آباد ہو چکے ہیں سابق آمر جنرل مشرف کے دور کی ظلم و زیادتیوں کی بدولت حالات بدتر ہوئے اور ساڑھے پانچ لاکھ غیر ملکی مہاجرین کی موجودگی میں مردم شماری کو کسی صورت میں قبول نہیں کریں گے اور نہ ہی یہ قانونی تصور ہونگے اتنی بڑی تعداد میں مہاجرین اور ان حالت میں مردم شماری کا مقصد بلوچوں کو اپنے ہی وطن میں اقلیت میں بدلنا ہے غیر ملکی مہاجرین کسی بھی قوم ، نسل ، زبان ، فرقے سے تعلق رکھتے ہوں انہیں فوری طور پر واپس بھیجا جائے بلوچستان کے حالات بہتر ہوئے بغیر مردم شماری نہ کرائی جائے کیونکہ مردم شماری کا عملہ آپریشن زدہ علاقوں تک رسائی نہ کر سکیں گے تو مردم شماری کیسے ہو گی مقررین نے کہا کہ وفاقی حکومت اور نادرا کے ارباب و اختیار اسلام آباد کی جانب سے غیر ملکیوں کو شناختی کارڈز جاری کرنے کی ٹھان لی ہے اسی لئے تمام شرائط ختم کئے گئے اب کوئی بھی غیر ملکی جہاں سے بھی آئے باآسانی نادرا سے شناختی کارڈز حاصل کر سکتا ہے اس سے پہلے ب فارم ، راشن کارڈ یا 1973ء کے شناختی کارڈ دیکھنے کے بعد جاری کئے جاتے تھے اب تمام شرائط ختم کر دیئے گئے ہیں جس کا مقصد یہی ہے کہ جو بھی غیر ملکی یہاں آ کر مذہبی جنونیت پھیلائے ، دہشت گردی کرے یا فرقہ واریت ، طالبانائزیشن جیسے منفی رجحانات یا خود کش حملے کرے انہیں کھلی چھوٹ دی گئی ہے ان کو باآسانی بلوچستان سے شناختی کارڈ جاری کرنے کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے جب ریاست کے ارباب و اختیار کو اپنی ہی ریاست میں غیر ملکی کو سہولت دے رہی ہے تو ان کے دعوے جھوٹے ثابت ہوں گی کہ امن و امان کے قیام کی کوششیں کی جا رہی ہیں غیر ملکی مہاجرین کو تو برداشت کیا جاتا ہے لیکن بلوچوں کے خدشات و تحفظات کو خاطر میں نہیں لایا جا رہا ہے انہوں نے کہا کہ 2013ء کے بعد بننے والی حکومت نے زور لگا کر بلاک شدہ شناختی کارڈ کا اجراء کے تمام شرائط ختم کر کے بلوچستانیوں کے ساتھ ناانصافی برتی غیر ملکی مہاجرین صرف بلوچوں کیلئے نہیں بلکہ تمام بلوچستانیوں کیلئے مسئلے کا سبب بنیں گے اس کی ذمہ داری نام نہاد جعلی حکمرانوں پر عائد ہوتی ہے انہوں نے کہا کہ اسلام آباد میں گوادر کے مسائل خصوصا بلوچ کواقلیت میں تبدیل ہونے سے روکنے کیلئے منعقد کرائی جانے والی آل پارٹیز کانفرنس کے کریڈٹ بلوچستان نیشنل پارٹی کو ہی جاتا ہے جس میں تمام سیاسی پارٹیوں نے شرکت کی اور متفقہ قراردادیں بھی پیش کی گئیں جو منظور کر لی گئیں یہ پارٹی پالیسیوں کی کامیابی ہے انہوں نے کہا کہ گوادر کے مسائل کو ملکی و بین الاقوامی سطح پر اجاگر کیا تا کہ گوادر پروجیکٹ پر پہلی ترجیح بلوچستان کو دی جائے اور بلوچوں کو اپنے ہی سرزمین پر اقلیت میں تبدیل ہونے سے روکنے کیلئے قانون سازی کی جائے اور گوادر کے بلوچوں کو اولیت دیتے ہوئے اقدامات کئے جائیں جبکہ بلوچوں کے حق ملکیت ، حق حاکمیت اور ان کے وسائل پر دسترس تسلیم کیاجائے ، مغربی روٹ کو ترجیح دی جائے۔ انہوں نے کہاکہ بی این پی قومی اجتماعی معاملات پر کبھی بھی مسلط پسندی کا اظہار نہیں کرے گی بلوچستان مادر وطن ہے اس کی حفاظت اولین ترجیحات میں شامل ہے ہم تعصب کی سیاست سے نفرت کرتے ہیں ترقی پسند ، روشن خیال جماعت ہیں تمام اقوام کو ان کے وسائل پر اختیار دلوانے کی جدوجہد کر رہے ہیں بلوچ وسائل پر پہلا حق بلوچوں کا ہے آج اکسیویں صدی میں بھی بلوچ کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں بلوچ قوم کے نوجوانوں اکیسویں صدی کے مقابلے کیلئے علم و قلم کو اپنا ہتھیار بنائیں اور حالات کا مقابلہ کریں کیونکہ حکمرانوں نے دانستہ طور پر ہر دور میں بلوچوں کو پسماندہ و بدحال رکھنے کی کوششیں کیں -انہوں نے کہا کہ مردم شماری سے قبل بلوچوں علاقوں ماندہ 60فیصد افراد کے شناختی کارڈز کو فوری طور پر بنایا جائے بلوچستان کے حالات سازگار ہونے تک مردم شماری نہ کرائی جائے ۔