کراچی/کوئٹہ: بلوچستان پیس فورم کے سربراہ سینئر سیاست دان وسابق سینیٹر نوابزادہ حاجی میر لشکری خان رئیسانی نے کہا ہے کہ کچھ لوگوں میں اسٹے زدہ پارلیمنٹ کی نشست پر بیٹھے کیلئے دوڑ لگی ہوئی ہے ۔
بڑے بڑے نام بھی کرسی کیلئے تگ ودو کررہے ہیں۔ انہوںنے قانون اور اسٹے کے پابند ہونے کے ناطے ضمنی انتخابات کیلئے کاغذات نامزدگی جمع نہ کرا کے نظام کو آئینہ دکھارہے ہیں، اس انتظار میںہیں کہ سپریم کورٹ کیا فیصلہ کریگی۔ عدالتی اسٹے پر ساڑھے تین سال تک کرسی پر براجمان رہنے والا شخص استعفیٰ دے کر ، اسپیکر قومی اسمبلی نے استعفیٰ قبول کرکے اور الیکشن کمیشن نے حلقہ میں انتخابات کرانے کا اعلان کرکے توہین عدالت کے مرتکب ہوئے ہیںان سب پر آئین کا آرٹیکل پانچ لاگو ہوتا ہے۔
یہ بات انہوںنے 18 فروری کو ہونے والے نیشنل ڈائیلاگ آن دی ری ایمیجنگ پاکستان سیمینار میں شرکت کیلئے بدھ کے روز کراچی پہنچنے پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہی۔ اس موقع پر سابق وفاقی وزیر میر ہمایوں عزیز کرد ودیگر بھی ان کے ہمراہ تھے۔ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے نوابزادہ حاجی میر لشکری خان رئیسانی نے کہا کہ کوئٹہ کے حلقے این اے 265 پر بلوچستان ہائیکورٹ کے الیکشن ٹربیونل کے فیصلے کیخلاف قاسم سوری کی درخواست سپریم کورٹ میں اب بھی زیر التواء ہے،مذکورہ درخواست کیخلاف انہوںنے بھی سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھاقانون اور اسٹے کے پابند ہونے کے ناطے وہ ضمنی انتخابات کیلئے کاغذات نامزدگی جمع نہ کراتے ہوئے نظام کو آئینہ دکھارہے ہیں اور اس انتظار میںہیں کہ سپریم کورٹ کیا فیصلہ کریگی۔ انہوںنے کہا کہ نادرا کی رپورٹ ہے کہ 2018ء کے انتخابات میں اس حلقہ میں 65 ہزار جعلی ووٹ ڈالے گئےv
دھاندلی ثابت ہونے پر بلوچستان ہائیکورٹ کے الیکشن ٹربیونل نے اس حلقہ میں دوبارہ انتخابات کرانے کا اعلان کیا تاہم سپریم کورٹ نے انہیں اور ان کے قانونی ماہرین کو سنے بغیر الیکشن ٹربیونل کے فیصلہ کیخلاف قاسم سوری کی دائر درخواست پر حکم امتناعی جاری کیا جو آج تک برقرار ہے اور پارلیمنٹ کو ساڑہ تین سالوں تک اسٹے پر چلایا گیا اس عرصے میں وہ اور ان کے ساتھی نظام کیخلاف قانونی چارہ جوئی اور جدوجہد کرتے رہے مگر ان کی کسی بھی درخواست پر عملدرآمد نہیں ہوا۔ انہوںنے نظام پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ اس نظام میںڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی پرویز اشرف کو یہ پتہ نہیں کہ قاسم سوری عدالتی اسٹے پر رکن قومی اسمبلی برقرار رہے اور سپریم کورٹ کی مرہون منت ہونے کے باعث وہ از خود نشست سے استعفیٰ نہیں دے سکتے تھے اس کے باوجود نہ تو سپریم کورٹ نے استعفیٰ کا نوٹس لیا نہ اسپیکر اور چیف الیکشن کمشنر کو اس بات کا علم تھاکہ سپریم کورٹ میں یہ کیس زیر سماعت ہے اور اس حلقہ میں ضمنی انتخابات کرانے کا اعلان غیر آئینی ہوگا، انہوں نے کہاکہ کچھ لوگوں میں اسٹے زدہ پارلیمنٹ کی نشست پر بیٹھے کیلئے دوڑ لگی ہوئی ہے بڑے بڑے نام بھی اس کرسی کیلئے تگ ودو کررہے ہیں جس کرسی نے نظام کو درست کرنے کی بجائے اس میں مزید بحران پیدا کئے ہیں۔
انہوںنے کہا کہ کرسی کیلئے دوڑ سماج میں ایک بہت بڑے بحران اور افراتفری کی نشانی ہے۔ انہوںنے کہاکہ آئین کا آرٹیکل پانچ ہر شخص کو آئین وقان کی پابندی کرنے کی پابند ہ کرتا ہے ایسے میںعدالتی اسٹے پر ساڑھے تین سال تک کرسی پر براجمان رہنے والا شخص استعفیٰ دے کر اور اسپیکر قومی اسمبلی نے استعفیٰ قبول کرکے اور الیکشن کمیشن نے حلقہ میں انتخابات کرانے کا اعلان کرکے توہین عدالت کے مرتکب ہوئے ہیںان سب پر آئین کا آرٹیکل پانچ لاگو ہوتا ہے۔ انہوںنے کہاکہ میں نے بذات خود اپنے قانونی ماہرین کے ہمراہ جاکر ریٹرننگ آفیسر کے پاس درخواست جمع کرائی ،اسپیکر قومی اسمبلی پرویز اشرف اور چیف الیکشن کمشنر کو بذریعہ ڈاک الیکشن ٹربیونل کا فیصلہ اور سپریم کورٹ کا حکم امتناعی اپنی درخواست کیساتھ منسلک کرکے ارسال کیا صوبائی الیکشن کمشنر کو بھی درخواست دی کہ قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 265 پر ضمنی انتخابات کا اعلان غیر قانونی ہے مذکورہ حلقہ سے متعلق کیس سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے ، وہ شخص جس نے استعفیٰ دیا وہ سپریم کورٹ کے حکم امتناعی کا پابند ہے کیوں کہ وہ اسٹے کی آڑ لیکر چار سال تک پارلیمنٹ پر مسلط رہا۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہاکہ وہ قانون اور اسٹے کے پابند ہونے کے ناطے ضمنی انتخابات کیلئے کاغذات نامزدگی جمع نہ کراتے ہوئے نظام کو آئینہ دکھارہے ہیں اور اس انتظار میںہیں کہ سپریم کورٹ کیا فیصلہ کریگی۔