|

وقتِ اشاعت :   January 24 – 2016

اسلام آباد : وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی احسن اقبال نے کہا ہے کہ جب بجلی نہیں ہے تو اکنامک زون کس طرح لگائے جا سکتے ہیں، توانائی نہ ہوئی اور سرمایہ کار چلا گیا تو وہ واپس نہیں آئے گا، اقتصادی راہداری 15 سالہ منصوبہ ہے جو 2030 میں مکمل ہو گا غیر ملکی جریدے بھی پاکستان میں ہونے والی ترقی سے متعلق لکھ رہے ہیں۔میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیر احسن اقبال نے کہا کہ چینی صدر کے دورے کے موقع پر اربوں ڈالر کے ایم او یو سائن ہوئے تاہم اس پر جو انڈرسٹینڈنگ پیدا ہوئیں انہیں سمجھنے کی ضرورت ہے ٗاقتصادی راہداری منصوبہ 2,3سال کا نہیں بلکہ 15 سال کا منصوبہ ہے اور یہ 2030 میں مکمل ہو گا۔ منصوبے کے 4 مرحلے ہیں جس کا پہلا مرحلہ گوادر پورٹ کا ہے جو اس منصوبے کا گیٹ وے ہے۔انہوں نے کہاکہ ملک کو توانائی بحرن کا سامنا ہے اور ملکی معیشت کی بحالی میں بڑی رکاوٹ بھی توانائی کی قلت ہی ہے اس لئے اکنامک زون کیسے لگائے جا سکتے ہیں کیونکہ اگر توانائی نہ ہونے کے باعث سرمایہ کار چلا گیا تو پھر واپس نہیں آئیگا انہوں نے کہا کہ چین نے توانائی منصوبے کے حوالے سے مدد کا اعلان کیا ہے اور 46 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری میں سے 35 ارب ڈالر توانائی کے منصوبوں پر خرچ کئے جائیں گے۔احسن اقبال نے کہاکہ اقتصادی راہداری منصوبے کے تحت مقامی لوگوں کو روزگار دینے کیلئے تربیتی مراکز بنائے جائیں گے اور اس دوران ماہی گیروں کو بھی تربیت دی جائے گی۔دریں اثناء وفاقی وزیر منصوبہ بندی‘ ترقی و اصلاحات پروفیسر احسن اقبال نے کہا ہے کہ بعض حلقوں کی جانب سے پاک چین اقتصادی راہداری پر تحفظات تھے جو وزیر اعظم نواز شریف دور کر چکے ہیں یہ تاثربے بنیاد ہے کہ اس منصوبے سے پنجاب سب سے زیادہ فائدہ لے رہا ہے،پاک چین اقتصادی راہداری منصوبہ ترقی کا روڈ میپ ہے اسے متنازعہ بنانے سے روکا جائے ، موجودہ حکومت کے اس فلیگ شپ پراجیکٹ سے ملک کی تمام اکائیاں مستفیدہوں گی، اقتصادی راہداری کا مغربی روٹ اڑھائی سال کی مدت کیساتھ ترجیحی بنیادوں پر2018ء میں تعمیر کیا جائیگا،اگر ضرورت پڑی تو اس الائنمنٹ کیلئے مختص کی گئی 40 ارب روپے کی رقم (سی ایف وائی) میں اضافہ کردیا جائیگا،صنعتی زون اورانڈسٹریل زون بنانے سے پہلے توانائی کے بحران پر قابو پانا بہت ضروری ہے، صنعتی زون بنانے کا وقت آیا تو تمام صوبوں کی مشاورت سے معاملات کو حل کیا جائیگا۔ وہ گزشتہ روزیہاں مقامی ہوٹل میں پائنا اور یو ایم ٹی کے زیر اہتمام ’’پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کی مختلف جہتیں‘‘ کے موضوع پر منعقدہ قومی سیمینار سے خطاب کررہے تھے۔تقریب میں چینی قونصل جنرل لاہور یوبورن،ترجمان حکومت بلوچستان انوارالحق کاکڑ،جسٹس (ر) اعجاز احمد چوہدری،ریکٹر یو ایم ٹی حسن صہیب مراد،سیکرٹری جنرل پائنا الطاف حسن قریشی،بریگیڈئیر (ر) حسن ملک،سابق قونصلر جنرل برائے سرمایہ کاری عمان جاوید نواز،مجیب الرحمان شامی،منو بھائی،عطاالرحمان،عمرانہ مشتاق سمیت دیگر سینئر صحافی اور اینکر پرسنز بھی اس موقع پر موجود تھے۔احسن اقبال نے کہا کہ سی پیک منصوبہ پر پاکستان کی عوام کا اتفاق رائے ہے اور وزیراعظم محمد نواز شریف نے بھی کہا ہے کہ یہ منصوبہ ایک گیم چینجر ہے جو نہ صرف اقتصادی ترقی کا حامل ہوگا بلکہ یہ دونوں ممالک کے درمیان معاشی و اقتصادی ،اطلاعات اور ثقافتی روابط کو بھی مستحکم بنائے گا نیز انفارمیشن اور کلچرل کوریڈور سی پی ای سی کا حصہ ہیں۔انہوں نے کہا کہ بعض حلقوں کی جانب سے پاک چین اقتصادی راہداری پر تحفظات تھے جو وزیر اعظم نواز شریف دور کر چکے ہیں یہ تاثربے بنیاد ہے کہ اس منصوبے سے پنجاب سب سے زیادہ فائدہ لے رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ چائنہ پاکستان اکنامک کوریڈور نہ صرف دونوں ممالک کے درمیان گہرے اور اسٹریٹجک تعلقات کا عکاس ہیں بلکہ یہ دونوں ممالک کے عوام کے فائدہ کے لئے بھی ہے۔ انہوں نے کہا کہ چائنہ پاکستان اکنامک کوریڈور ایک قومی منصوبہ ہے جس کے پاکستان کی ترقی پر طویل المدت اثرات مرتب ہوں گے اور ہم اس بات کو یقینی بنانا چاہتے ہیں کہ پاکستان کے تمام صوبے اور علاقے اس پراجیکٹ سے فائدہ اٹھائیں ۔ انہوں نے کہا کہ 2013ء میں انتخابات کے بعد جب وزیراعظم محمد نواز شریف نے اپنے عہدے کا حلف بھی نہیں لیا تھا تو پاکستان کے دورہ پر آئے ہوئے چین کے وزیراعظم کے ساتھ ملاقات کے دوران اقتصادی شراکت داری کی بنیادیں رکھی گئیں اور جب دونوں رہنماؤں نے معاشی شعبہ میں تعلقات میں اضافہ پر اتفاق کیا تو اس کی راہیں متعین کی گئیں۔ انہوں نے کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان متعددبار اعلیٰ سطحی وفود کے تبادلے ہوئے اور جب چین کے صدر نے 20 اپریل 2015ء کو پاکستان کا دورہ کیا تو دونوں ممالک نے چائنہ پاکستان اکنامک کوریڈور پر دستخط پر اتفاق کیا جس میں انفراسٹرکچر اور توانائی کے منصوبوں میں چینی سرمایہ کاری شامل ہے۔انہوں نے کہا کہ صوبوں میں ہائیڈل پاور پراجیکٹ کم لگانے کے بارے میں مختلف اعتراضات کئے گئے لیکن حکومت نے توانائی بحران سے نمٹنے کیلئے بہترین اقدامات کئے جن میں داسو ڈیم 4500،سوکھی کناری پاور پراجیکٹ870،کشمیر میں 720میگاواٹ کے منصوبوں پر کام کا آغاز شامل ہے،جس کے بعد2018ء تک 10 ہزار میگا واٹ بجلی نیشنل گرڈ میں جمع ہو جائیگی جبکہ 2025ء تک 15 ہزار میگا واٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت ہو جائیگی ۔وفاقی وزیر نے کہا کہ ہمارے ملک میں بے شمار وسائل موجود ہیں ،پاکستان کوئلے کے ذخائر سے مالا مال ہے لیکن اس کو استعمال کرنے میں ناکام ہے،کوئلے کے ذریعے 6600میگا واٹ بجلی پیدا کرنے کے بہت سے منصوبوں پر کام شروع ہوچکا ہے جس سے ملک میں سرمایہ کاری کے بہترین مواقع پیدا ہونگے اور ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہو جا ئے گا۔وفاقی وزیر نے کہا کہ کوئلے کے منصوبوں پر بھی اعتراضات کئے گئے لیکن ہم نے کوئلے کے منصوبوں کو فوقیت دی کیونکہ کوئلے کے منصوبے لگانے سے لاگت بھی کم آتی ہے اور وہ آپریشنل کرنے کیلئے بھی بہت کم لگتا ہے جو سی پیک کی کامیابی کیلئے بہت ضروری ہے۔احسن اقبال نے کہا کہ اقتصادی راہداری کے مغربی روٹ پر اقتصادی زون قائم کئے جائیں گے پاک چین اقتصادی راہداری منصوبہ خوشحالی اور ترقی کا ضامن ہے ،وزیراعظم محمد نواز شریف نے پاک چین اقتصادی راہداری کے مغربی روٹ کی جلد تکمیل کی ہدایت کی ہے۔انہوں نے کہا کہ اقتصادی راہداری منصوبے کے انفراسٹرکچر پر بھی اعتراضات کئے گئے،کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ سی پیک ایک روٹ یا سڑک بنانے کا نام ہے لیکن اصل میں یہ منصوبوں پاکستان اور چائنہ کو جوڑنے کا نام ہے ،خصوصی طورپر پاکستان کی معیشت کو مضبوط کرنے کیلئے چائنہ کی سپورٹ ہے۔وفاقی وزیر نے کہاکہ پاکستان کو اسوقت جومسائل درپیش ہیں دنیا کے ہر ترقی کرنیوالے ملکوں کو ایسے مسائل کا سامنا ہے۔انہوں نے کہاکہ پاکستان کی تاریخ میں بہت سے نشیب و فراز آئے ہیں،پاکستان ایٹمی طاقت بھی بنا،ایک وقت میں جنوبی ایشیا میں ترقی کی دوڑ میں سب سے آگے بھی نظر آیا،لیکن مختلف وجوہات کی بنا پر ہم اس ترقی کو برقرار نہیں رکھ سکے۔ احسن اقبال نے کہا کہ ہم نے مثبت سوچ کیساتھ جس سفرکا آغاز کیا ہے اس کو جاری رکھنا چاہیئے