|

وقتِ اشاعت :   February 20 – 2023

کوئٹہ: کوئٹہ کے علاقے سیٹلائٹ ٹاؤن سے گرفتار مبینہ خاتون خود کش حملہ آور سے متعلق مزید انکشافات سامنے آگئے ہیں جبکہ وائس فار بلوچ مسنگ پرسنزاور بلوچ وومن فورم بلوچستان نے ماہل بلوچ پر لگائے الزامات مسترد کردئیے۔

وزیر داخلہ بلوچستان میر ضیاء اللہ لانگو کہتے ہیں کہ سی ٹی ڈی کے حالیہ کارروائی میں گرفتار ہونے والی ماہل بلوچ کو عدالت میں پیش کیا جائے گا ماؤں بہنوں کو اپنے مقاصد اور ملک وقوم کے خلاف استعمال کرنے والوں کو اپنے مضموم اقدامات سے متعلق سوچنا ہوگا حکومت کی ذمہ داری ہے عوام کے جان ومال کو تحفظ دینا اور امن کا قیام حکومت کی ذمہ داری ہے اور اپنی یہ ذمہ داری کی ادائیگی کیلئے کسی صورت بھی مصلحت کا شکار نہیں ہوسکتے۔ ذرائع کے مطابق کاؤنٹر ٹیررم ڈیپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی) کی جانب سے کوئٹہ کے علاقے سیٹلائٹ ٹاؤن لیڈیز پارک سے گرفتار مبینہ خاتون خودکش حملہ آور ماہل بلوچ سے متعلق مزید اہم انکشافات سامنے آئے ہیں،خاتون کے شوہر بیباگار بلوچ عرف ندیم کاتعلق کالعدم تنظیم،سسر ماسٹر حسین بی این ایم کے مرکزی کمیٹی کے ممبر ہے،بیباگار بلوچ اور اس کے بھائی کالعدم تنظیم کے کمانڈروں کے اہم ساتھیوں میں سے تھے جو دونوں سال 2016ء میں پیسوں اور ہتھیاروں پر آپس کی لڑائی میں مارے گئے تھے۔

ماہل بلوچ کے بہن کی شادی کالعدم تنظیم کے سربراہ کے بھتیجے سے ہوئی تھی جو حقوق کیلئے کام کرنے والے تنظیم کے چیئرمین ہے۔ماہل بلوچ کواستعمال کرنے کامقصد کالعدم تنظیم کو سپورٹ کرناتھا۔مذکورہ مبینہ خاتون خود کش حملہ آور کو گزشتہ روز 18 فروری بروز ہفتہ محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی)بلوچستان نے انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن کرتے ہوئے گرفتار کیا تھا ایف آئی آر کے متن کے مطابق گرفتار خاتون سے 3کلو8سو کلوگرام وزنی خودکش جیکٹ بمعہ بال بیرنگ بھی برآمد ہوئی تھی۔ترجمان سی ٹی ڈی کے مطابق خاتون خودکش بمبار کیخلاف تھانہ سی ٹی ڈی میں مقدمہ درج کرکے مزید تحقیقات شروع کردی گئی ہیں۔ گزشتہ سال کراچی یونیورسٹی کے قریب کالعدم تنظیم سے تعلق رکھنے والی خاتون نے خودکش دھماکا کیا گیا جس میں دو خواتین سمیت 3 چینی باشندوں ہلاک ہوگئے تھے۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ گزشتہ سال اکتوبر میں جاری سیکیورٹی رپورٹ میں اس بات کا انکشاف کیا گیا تھا کہ بلوچستان کی کالعدم علیحدگی پسند تنظیموں نے اب بلوچ خواتین کو اپنی کارروائیوں کے لیے استعمال کرنا شروع کر دیا ہے۔ گزشتہ سال بلوچستان میں فعال کالعدم بلوچ علیحدگی پسند تنظیموں سے مبینہ تعلق اور دہشت گردی خصوصا خودکش حملوں میں استعمال ہونے کے الزامات کی بنا پر دو بلوچ خواتین کی گرفتاری کے خلاف صوبے کے مکران ریجن میں کئی روز تک احتجاج بھی کیا گیا تھا۔سیکیورٹی اداروں نے کراچی سے بلوچ شاعرہ حبیبہ پیر جان کو 19 مئی کو حراست میں لیا تھا لیکن انہیں دو روز بعد رہا کر دیا گیا جب کہ 15 مئی کو بلوچستان کے علاقے ہوشاپ سے گرفتار ہونے والی نور جہاں بلوچ اب بھی زیرِ حراست تھا۔

وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے چیئرمین نصراللہ بلوچ کہتے ہیں کہ ماہل بلوچ کے شوہر کی وابستگی جس بھی تنظیم سے ہو ہمیں کوئی سروکار نہیں لیکن ایک خاتون کو سی ٹی ڈی حراست میں لینے کا دعویٰ کرتی ہے،سی ٹی ڈی کی اکثرکارروائیاں مشکوک ہوتی ہیں اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس پر سوال اٹھایاہے،ماہل بلوچ کی اہل خانہ نے ہمیں بتایاکہ رات 12سی ٹی ڈی کے اہلکار ان کے گھر آئے ماہل کو ایک کمرے بند کیا ساس اور دوسرے لوگوں کو دوسرے کمرے میں بند کیا اور پھر سب کو سی ٹی ڈی نے انہیں حراستی مرکز منتقل کیا اور پوری رات انہیں وہاں رکھااور صبح انہیں چھوڑ دیاہم سمجھتے ہیں کہ سی ٹی ڈی کا یہ طریقہ واردات مشکوک ہے۔خاتون پرالزامات یکسر طورپر مسترد کرتے ہیں کسی کے خاندان کی وابستگی کی بنیاد پر خواتین اور بچوں کو ریاستی جبر کانشانہ بنایاجارہاہے پہلے بھی رشیدہ کو شوہر کے ساتھ اٹھایاتھا ریاست اگر سمجھتی ہے کہ اجتماعی سزا کی بنیاد پر خواتین کو بوگس مقدمات میں ملوث کرکے بلوچستان کامسئلہ حل کیاجاسکتاہے یہ ریاست اور ریاستی اداروں کی غلط فہمی ہے۔بلوچ وومن فورم بلوچستان کی آرگنائزر زین گل بلوچ کہتی ہے کہ ایسے بیانات دینی چاہیے کہ لوگ بھروسہ کرسکے ماہل بلوچ کو دیکھا ہے ان کی بچیاں ہے جو اپنے گھر میں دیگرعورتوں کے ساتھ رہ کر کشیدہ کاری کرتی ہے۔انہوں نے کہاکہ ماہل کی ساس کہتی ہے کہ سی ٹی ڈی نے ان کے گھر میں گھس کر اسلحہ رکھا اورکہاکہ یہ آپ لوگوں کا اسلحہ ہے جبکہ سی ٹی ڈی کہتی ہے کہ ہم نے خودکش جیکٹ برآمدکیاہے بیانات متضاد ہے پہلے رشیدہ کو لاپتہ کیاگیا وہ ذہنی طورپر دباؤ کاشکار تھی۔اگرکسی خاتون کا شوہر ملوث ہے توپھر خاتون کا کیا قصورہے؟ہمارے قوانین اور نہ ہی بین الاقوامی قوانین خواتین کو اس طریقے سے اٹھانے کی اجازت دیتاہے اس طرح کے واقعات کا ہمارے معاشرے پر انتہائی منفی اثرات مرتب ہونگے۔نواب اکبر خان بگٹی شہید کے فرزند نوابزادہ جمیل اکبر بگٹی نے کہاکہ جبری طورپر گمشدگی اتنا پرانا حربہ ہے کہ اس پر اب رونا بھی نہیں آتا ہنسی توچھوڑ دے اب تو یہ حال ہے کہ خواتین اور بچوں سے بھی خوف ہے کہ خودکش بمبار ہے بلوچ قوم گزشتہ75سالوں سے اپنے حقوق کیلئے جدوجہد کررہے ہیں پہلے بلوچ مردوں اب تو خواتین اور بچوں کو بھی نشانہ بنایاجارہاہے انہوں نے کہاکہ وہ بلوچ جو ریاستی پالیسی سے اتفاق نہیں کرتا وہ کالعدم تنظیم سے تعلق رکھتاہے چاہے وہ چھوٹا بچہ ہو خاتون ہو یا 90سال کا بوڑھا اس پر کالعدم تنظیموں کا ٹپہ لگادیاجاتاہے کراچی میں جو کچھ ہوا ایسی صورتحال تھی جیسی کسی فلم کی شوٹنگ ہورہی ہو۔ انہوں نے کہاکہ ہر وہ شخص جو اس وقت حکومت چاہے مرکزی ہو یا صوبائی حکومت کا حصہ ہوں یا میرے قریبی ہوں ان کے دور حکومت میں بلوچوں کے ساتھ جو ظلم ہورہاہے ان میں بلوچیت باقی نہیں رہا یہ صرف مال بٹورنے آئے ہیں۔پشتونخوامی عوامی پارٹی کے مرکزی سیکرٹری جنرل عبدالرحیم زیارتوال نے کہاکہ پشتونخوامیپ ریاستی پالیسیوں کی مذمت کرتی ہے جس میں کسی خاتون کو اٹھایا جاتا ہے۔

دہشتگردی، جبری طور پر گمشدگی جیسے صورت حال سے نکلنے کیلئے تمام اسٹیک ہولڈرز کو مل بیٹھنے کی ضرورت ہے۔بلوچستان نیشنل پارٹی کے مرکزی کمیٹی کے رکن و ضلع کوئٹہ کے صدر غلام نبی مری نے کہاکہ مردوں کے ساتھ ساتھ اب توہماری خواتین محفوظ نہیں ہے، رشیدہ زہری کو کراچی سے اٹھایا گیا 15 دن تک ٹارچر سیل میں رکھا گیا۔ سیٹلائٹ ٹاؤن سے خاتون کو اٹھایا گیا ہے جو قابل مذمت عمل ہے۔دوسری جانب صوبائی وزیر داخلہ میر ضیاء اللہ لانگو کہتے ہیں کہ ہمیں اطلاعات موصول ہورہی تھی کہ دہشتگردوں کی جانب سے عام لوگوں،خواتین،بچوں اور سیکورٹی اداروں کو نشانہ بنا نے کی سازش کی جارہی ہے جس کے بعد تمام سیکورٹی اداروں کو الرٹ رہنے کی ہدایت کی گئی تھی ہے ہمیں بھی ا طلاعات ملی تھی کہ شر پسندی کی اس کارروائی میں خاتون کو بطور خود کش استعمال کیا جارہا ہے۔

جس پر تمام سیکورٹی ادارے متحرک تھے اور اسی دوران کارروائی کرتے ہوئے شاری بلوچ کو گرفتار کیا گیا انہوں نے کہا کہ عوام کے جان ومال کا تحفظ یقینی بنا نا حکومت کی ذمہ داری ہے ہم اپنے لوگوں کو کسی بھی شر پسندی کا نشانہ بننے نہیں دے سکتے ایک سوچھے سمجھے منصوبے کے تحت یہ تاثر کی جارہا ہے کہ ایک بلوچ خاتون کو حراست میں لیا گیا ہے جو سر اسر غلط ہے حکومت کی جانب سے خواتین کی گرفتاری کو ایشو بنا نے والے ان تنظیموں کو کیوں کر نہیں کہتے جو اپنے مضموم مقاصد کیلئے استعمال کر تے ہیں بلوچ روایات میں خواتین اور بچے ہر دن مستثنیٰ ہوتے ہیں مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ اپنے مقاصد کے حصول کیلئے یہاں خواتین کو بھی خود ساختہ جنگ میں گھسیٹا جارہا ہے ۔

حکومت اور ریاست اپنے لوگوں کے تحفظ کیلئے کسی بھی صورت مصلحت کا شکار نہیں ہوسکتی غیر قانونی کاموں میں خواتین یا مرد جو بھی ملوث پا یا گیا قانون اس کے لئے برابر ہے یہ پہلی مرتبہ نہیں کہ کوئی خاتون قانون کی گرفت میں ہو بلوچستان سمیت ملک بھر کے جیلوں میں بے شمار خواتین زیر حراست ہیں جو اپنے مقدمات کا سامنا کررہی ہیں ماہل بلوچ پر دہشتگردی کا سنگین الزام ہے اگر وہ عدالت میں خود کو بے گناہ ثابت کردیں تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں حکومت اس معاملے میں غیر جانبدار ہے انہوں نے کہا کہ اب تک کی جو اطلاعات موصول ہوئی ہے ماہل کے شوہر کا بھی کالعدم تنظیم سے تعلق رہا ہے جو سیکورٹی اداروں کی کارروائی میں مارا گیا انہوں نے کہا کہ اس سے قبل بھی امن دشمن تنظیموں کی جانب سے شاری بلوچ کو خود کش حملہ آور کے طور پر استعمال کیا گیا اور اب یہ دوسرا واقعہ سامنے آیا ہے ہم سمجھتے ہیں کہ بلوچ قوم کو ایک سوچھے سمجھے منصوبے کے تحت ایک دلدل میں دھکیلا جارہا ہے تاکہ اپنے مفادات حاصل کئے جاسکیں۔